تہران میں بین الپارلیمانی یونین کے سربراہ کے مذاکرات ، یکجانبہ پسندی کا مقابلہ کرنے کی ضرورت پر تاکید
علاقے اور دنیا کے بہت سے مسائل کی جڑیں بعض ممالک خاص طور سے امریکہ کی آمریت میں پیوست ہیں کہ جو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر کے یکجانبہ پسندی کی راہ پر گامزن ہے۔
صدر مملکت حسن روحانی نے اتوار کو تہران میں عالمی بین الپارلیمانی یونین کی صدر گیبریل کوؤاس بارون سے ملاقات میں اس نکتے کا ذکر کرتے ہوئے امریکہ کی مداخلت پسندانہ موجودگی کو علاقے میں مسائل و بدامنی کا باعث قرار دیا-
امن و سیکورٹی کے لئے چندجانبہ پسندی کی ضرورت ہے جبکہ امریکی پالیسی یکجانبہ پسندی پرمبنی ہے کہ جو علاقے کے ممالک کے درمیان تعاون کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے-
صدر روحانی نے اس موضوع کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے افغانستان ، عراق ، شام اور یمن میں امریکی مداخلت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے تمام علاقوں اور خلیج فارس کی سیکورٹی ، علاقے کے ممالک کے ذریعے پوری ہونا چاہئے-
ایران کے وزیرخارجہ محمد جواد ظریف نے عالمی بین الپارلیمانی یونین کی سربراہ سے ملاقات میں علاقائی کشیدگی کم کرنے کے لئے پارلیمانی طریقہ کار سے استفادہ کرنے اور علاقائی تعاون کو مضبوط بنانے کے لئے جدت عمل اور منصوبوں کو آگے بڑھانے کی یاد دہانی کرائی -
علاقے کے ممالک ، حالیہ دو دہائیوں میں سخت و مشکل دور سے گذرے ہیں اور ایسے بحرانوں اور دباؤ کا سامنا کیا ہے جو مداخلت پسند حکومتوں نے ان پر مسلط کیا ہے-
اس صورت حال نے امریکہ کی یکطرفہ پسندی کو فروغ دینے کے لئے ایک موقع فراہم کیا ہے - ایٹمی سمجھوتے سے امریکہ کے باہر نکلنے اور قانون پسندی و اشتراک عمل کے اصول کو چیلنج کرنے جیسے اقدامات کہ جو بین الاقوامی امن و ثبات کے ضامن ہیں ، اسی طرح کے رویے کا نتیجہ رہے ہیں-
افسوس کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسی علاقے کی بعض حکومتیں امریکہ سے اپنی وابستگی کی بنا پر واشنگٹن کی شرارت آمیز اور اسرائیل نواز پالیسیوں کی پیروی کررہی ہیں-
عالمی بین الپارلیمانی یونین کی صدر سے ملاقات میں اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر کے بیانات اسی نکتے کی جانب اشارہ ہیں - صدر حسن روحانی نے اس سلسلے میں ایرانی سرحدی حدود میں امریکی ڈرون کی جارحیت کی جانب اشارہ کیا اور اس اقدام کو علاقے میں امریکہ کی جانب سے نئی کشیدگی کا آغاز اور خلیج فارس کے اہم آبی راستے کی سیکورٹی کے لئے خطرہ قرار دیا اور یاد دہانی کرائی کہ تمام بین الاقوامی اداروں کو چاہئے کہ امریکہ کے اس جارحانہ اقدام پرمناسب ردعمل ظاہر کریں لیکن کیا بین الپارلیمانی یونین اس مشکل کو دور کرنے میں مدد کر سکتی ہے اور اگر کر سکتی ہے تو کس حد تک - کیا بین الپارلیمانی یونین ، قوموں کے نظریات کو منعکس کرنے والا، راہ حل کو پیش کرنے والا اور خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے تعاون کی زمین ہموار کرنے والا ادارہ ثابت ہو سکتا ہے-
مجلس شورائے اسلامی پارلیمنٹ کے تحقیقاتی شعبے کے سربراہ اور ممبر پارلیمنٹ کاظم جلالی اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ آج عالمی بین الپارلیمانی یونین اہم پوزیشن کی حامل ہے - پارلیمانیں ، قوموں کے مطالبات کو بخوبی سمجھتی ہیں اور انھیں منعکس کر سکتی ہیں- اس لحاظ سے یہ ادارہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی مانند ایک مناسب ادارہ ہے جس میں علاقائی و عالمی تعاون کے بارے میں گفتگو ہوسکتی ہے-
عالمی بین الپارلیمانی یونین ایک سو دس سال پرانا ادارہ ہے اور تقریبا ایک سو اسّی ممالک اس کے رکن ہیں اور اس کی تشکیل کا اہم مقصد دنیا بھر کی پارلیمانوں کے درمیان گفتگو اور قوموں کے مابین تعاون میں مدد کرنا ہے - اس لحاظ سے یہ یونین عالمی سطح پر ایک موثر ادارہ ہے جو ملکوں کی پارلیمانوں کے درمیان رابطے قائم کرنے ، خطرات کے بارے میں ایک دوسرے کے نظریات کو نزدیک لانے اور دنیا کے امن و ثبات کو درہم برہم کرنے کے عوامل کی شناخت میں مدد کر سکتا ہے-
اس کی توانائیوں سے امن و صلح کو آگے بڑھانے اور جارحین کے اقدامات سے پیدا ہونے والی کشیدگی کو روکنے کے لئے استفادہ کیا جا سکتا ہے- اس یونین کے سربراہ کا دورہ تہران اور ایرانی حکام سے مذاکرات کا اسی تناظر میں جائزہ لینا چاہئے-