ایرانی میزائل طاقت اور امریکہ کی خوش فہمی
ایرانی وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف کا ایک انٹرویو اور ایرانی میزائل پروگرام کے بارے میں ان کا جواب امریکی صدر اور وزیر خارجہ کی خوش فہمی کا سبب بن گیا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے یہ انٹرویو امریکی ٹی وی چینل این بی سی کو دیا تھا۔
وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے ایرانی میزائل پروگرام سے متعلق مذاکرات کی امریکہ کی درخواست کے بارے میں اپنے انٹرویو کے دوران کہا کہ ”اگر امریکہ میزائل پروگرام کے بارے میں مذاکرات کرنا چاہتا ہے تو وہ پہلے علاقے میں اپنے ہتھیاروں کی فروخت بند کرے۔“ لیکن امریکی خبر رساں ایجنسی ایسو شی ایٹڈ پریس نے ڈاکٹر ظریف کے انٹرویو کے بارے میں دعویٰ کیا ہے کہ ایرانی وزیر خارجہ نے این بی سی ٹی وی چینل کو دیئے گئے اپنے انٹرویو میں ایرانی میزائل پروگرام کے سلسلہ میں تہران کی آمادگی کا اظہار کیا ہے۔
اس دعوے اور ایرانی وزیر خارجہ کی بات چیت کو توڑ مروڑ کر پیش کئے جانے کے بعد امریکی صدر اور وزیر خارجہ ڈونلڈ ٹرمپ اور مائک پومپیو نے، جو نفسیاتی جنگ اور داخلی اختلافات کے ذریعہ اسلامی جمہوریۂ ایران کو کمزور کرنے کے درپے ہیں، ایسو شی ایٹڈ پریس کے دعوے کو اپنے لئے ایک کامیابی سے تعبیر کیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے، جو وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے کے بعد سے ایران کے بارے میں عجیب و غریب خواب دیکھتے رہے ہیں، ایسو شی ایٹڈ پریس کے دعوے کے بعد کہا ہے کہ ”ایران کے بارے میں بہت زیادہ پیش رفت حاصل ہوئی ہے۔“
ایران کی دفاعی اور میزائل توانائی کے بارے میں مذاکرات کا موضوع اسلامی جمہوریۂ ایران کی حاکمیت کی ہر سطح پر ریڈ لائن قرار دیا گیا ہے۔ ایران نے بارہا تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ میزائل پروگرام سمیت اپنے دفاع کے بارے میں تہران کسی بھی ملک سے مذاکرات نہیں کرے گا۔ اسی سلسلہ میں اقوام متحدہ میں ایران کے نمائندہ دفتر نے میزائل پروگرام کے بارے میں مذاکرات پر ایران کی آمادگی کی بعض خبر رساں ایجنسیوں کی خبروں کے بارے میں کہا ہے کہ ”ایران کے دفاعی اور میزائل پروگرام کے بارے میں مذاکرات نہیں ہوسکتے۔“
ایرانی میزائل طاقت اور مغربی ایشیا کے علاقہ میں اس کی مؤثر اور طاقتور موجودگی ایران کے ایسے دو موضوعات ہیں جنہیں ڈونلڈ ٹرمپ کسی بھی طریقہ سے ختم کرنا چاہتے ہیں۔ جامع ایٹمی معاہدہ سے امریکہ کی یک طرفہ علیٰحدگی کا ٹرمپ کا حکم بھی اسی پالیسی کا حصہ ہے اور امریکہ ”زیادہ سے زیادہ دباؤ“ اور ”دھونس دھمکی“ کے ذریعہ ایران کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کر رہا ہے، ایسے مذاکرات جن میں علاقہ میں ایران کی موجودگی اور میزائل پروگرام شامل ہوں۔
اس سلسلہ میں ”ٹیم بی“ کی سرگرمیاں واضح ہیں اور متحدہ عرب امارات میں ایک بندرگاہ پر بحیرۂ عمان میں تیل ٹینکروں پر ایران کے حملے جیسے مختلف الزامات امریکہ، سعودی عرب، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے آپسی تعاون کا ثبوت ہیں۔ اس تعاون کا مقصد ایران کو دفاع کے قابل نہ رہنے دینا اور، بقول ٹرمپ کے، ایران کو ایک عام ملک میں تبدیل کرنا ہے۔
امریکہ کے ”زیادہ سے زیادہ دباؤ“ کے مقابل ایران کی زیادہ سے زیادہ استقامت اور ڈاکٹر جواد ظریف کی فعال سفارت کاری نے ٹرمپ اور ”ٹیم بی“ کے خوابوں کو مٹی میں ملا دیا ہے اور اسی مسئلہ نے امریکی حکام کو توہمات اور خام خیالی میں مبتلا کردیا ہے۔ نیویارک میں ایرانی وزیرخارجہ کی سفارتی آمد و رفت کو محدود کرنے اور ان پر پابندی کی کوشش ایران کی ہوش مندانہ سفارت کاری کے اثر انداز اور کارگر ہونے کا ثبوت ہے جو ٹرمپ حکومت اور ان کی وزارت خارجہ کے لئے ایک چیلنج بن گئی ہے۔
اب امریکی ٹی وی چینل این بی سی کو دیئے گئے انٹرویو میں ایرانی میزائل پروگرام کے بارے میں ایرانی وزیر خارجہ کے دنشمندانہ جواب میں تحریف امریکی سفارت کاری کی کمزوری کی علامت ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکی سفارت کاری ہر میدان میں ایران سے مغلوب ہے۔