ایٹمی معاہدے کی بقا، یورپ کے عملی اقدام میں منحصر ہے نہ کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں
اسلامی جمہوریہ ایران کے نائب وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اس بات کی اجازت نہیں دے گا کہ امریکہ، یورپی ملکوں کے ساتھ ایران کے مذاکرات سے غلط فائدہ اٹھائے-
سید عباس عراقچی نے بدھ کے روز، ایران اور امریکہ کے سربراہوں کے درمیان آئندہ دنوں میں ملاقات پر مبنی بعض فریقوں کی جانب سے کئے گئے پروپگنڈے کے بارے میں کہا کہ ایران ، امریکہ سے مذاکرات نہیں کرے گا- ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کے حالیہ دورۂ فرانس، اور فرانس کے شہر بیاریٹز میں جی سیون کے سربراہی اجلاس کے موقع پر فرانس کے صدر کے ساتھ ان کی بات چیت کا مختلف ذرائع ابلاغ میں وسیع انعکاس ہوا ہے- فرانسیسی حکام کے ساتھ ظریف کی چار گھنٹے کی بات چیت سے یہ ثابت ہوگیا کہ ایٹمی معاہدے کے فریق ممالک بدستور ، امریکی مخالفت کے باوجود اس عالمی سفارتکاری کے کارنامے کی حمایت کر رہے ہیں-
جی سیون اجلاس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی موجودگی کے باوجود ، فرانس کی جانب سے ایٹمی معاہدے کی حمایت نے امریکیوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ ایران اور یورپ کے تعلقات اور ایٹمی معاہدے کا مسئلہ دوطرفہ اور امریکی پالیسیوں سے جدا ہے- ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے کے بعد، ایران ایٹمی معاہدے میں باقی رہ جانے والے فریق ملکوں کے ساتھ تعاون اور تبادلۂ خیال جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ ایران کے مفادات کی تکمیل کے ساتھ ہی ایٹمی معاہدے کی بقا کی ضمانت بھی حاصل ہوجائے-
ایران موجودہ صورتحال میں اس وقت تک ایٹمی معاہدے پر کاربند رہے گا جب تک کہ دیگر یورپی فریق ممالک بھی اس معاہدے کی مکمل طور پر پابندی کریں گے- ابھی تک ایٹمی معاہدے کے باقیماندہ فریقوں خاص طور پر یورپی ملکوں نے مکمل طور پر اس معاہدے کو عملی جامہ پہنانے کی سمت میں قدم نہیں اٹھایا ہے- ایسے حالات میں ایران ایٹمی معاہدے میں کئے گئے اپنے وعدوں میں کمی کی پالیسی اپناکر اس کوشش میں ہے کہ وعدوں پرعملدرآمد میں توازن برقرار کرنے کے ساتھ ہی ایٹمی معاہدے کے باقی رہنے کے تعلق سے انجام پانے والی کوششوں میں مدد و تعاون کرے-
ایران کے وزیر خارجہ کے سرکاری دورۂ فرانس کے بعد، ان کا اس ملک کا غیر متوقع دورہ اور ایٹمی معاہدے کے بارے میں ایک بار پھر تبادلۂ خیال، اسی دائرے میں اہمیت کا حامل ہے- ایران ایٹمی معاہدے میں کئے گئے اپنے وعدوں میں کمی لانے کے ساتھ ہی اس امر میں کوشاں ہے کہ مسلسل اور تعمیری تبادلۂ خیال کے ذریعے ایٹمی معاہدے کو اس کے صحیح راستے سے منحرف نہ ہونے دے تاکہ ایران کے اقتصادی مفادات کو مکمل طور پر عملی جامہ پہنایا جا سکے-
اس درمیان امریکہ کے ساتھ ایران کے مذاکرات کی بات ، تصور کے برخلاف ہے کیوں کہ ایک ایسا ملک کہ جو اپنے وعدوں کا پابند نہ ہو، اس کے ساتھ دوبارہ مذاکرات کے لئے اعتماد نہیں کیا جا سکتا- اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام نے بارہا کہا ہے کہ ایٹمی معاہدے سے ہٹ کر امریکہ کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات کا امکان نہیں ہے- اور امریکہ کے ساتھ مذاکرات اس وقت نہیں ہوسکتے جب تک کہ وہ ایٹمی معاہدے میں دوبارہ واپس نہ آجائے اور ایرانی قوم کے خلاف عائد کردہ پابندیوں کو ختم نہ کردے-
ایٹمی معاہدے کے تجربے نے ثابت کردیا ہے کہ امریکہ قابل اعتماد ملک نہیں ہے اور ایٹمی معاہدے کو بچانے کی یورپی ملکوں کی کوششیں، امریکہ پر مرکوز نہیں ہونی چاہئے کیوں کہ یہ ملک بنیادی طور پر ایٹمی معاہدے کا مخالف ہے- چنانچہ فرانس کے صدر امانوئل میکرون کی جانب سے، ایٹمی معاہدے کو تعطل سے نکالنے کی کوششیں امریکہ - ایران مذاکرات کے مسئلے پر مرکوز نہیں ہونی چاہئے کیوں کہ بنیادی طور پر ایسے حالات میں مذاکرات ناممکن ہیں-