جان بولٹن کی برطرفی اور اس کے نتائج
بالآخر امریکی صدر ٹرمپ اور قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کے درمیان اختلافات کے بارے میں میڈیا کی ہفتوں کی قیاس آرائیوں کے بعد وہائٹ ہاؤس سے جان بولٹن کی چھٹی ہو ہی گئی۔
صدر ٹرمپ نے اپنے ٹوئیٹر پیج پر منگل کو لکھا کہ ”میں نے کل رات جان بولٹن کو بتادیا تھا کہ وہائٹ ہاؤس میں اب ان کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اور حکومت کے دیگر اراکین ان کی بہت سی تجاویز کے شدید مخالف تھے، اسی وجہ سے میں نے جان بولٹن سے استعفیٰ دینے کو کہا تو انہوں نے صبح یہ کام کردیا۔ میں ان کی خدمات کا شکر گزار ہوں۔ اگلے ہفتہ قومی سلامتی کے نئے مشیر کے نام کا اعلان کردوں گا۔“ اس طرح حالیہ برسوں میں امریکہ کے ایک جنگ پسند ترین اور متنازعہ ترین اعلیٰ عہدیدار کی وہائٹ ہاؤس سے چھٹی کر دی گئی۔ جان بولٹن گزشتہ ڈھائی سال کے دوران ٹرمپ کے تیسرے قومی سلامتی کے مشیر تھے۔
جان بولٹن نے وہائٹ ہاؤس میں قدم رکھتے ہی امریکی خارجہ پالیسی تمام بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں نیز دنیا کے اکثر ممالک کے خلاف اختیار کی جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ امریکی صدر کو جامع ایٹمی معاہدہ سے نکلنے کی ترغیب ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر کی حیثیت سے جان بولٹن کا ایک متنازعہ ترین اقدام تھا۔ اس اقدام سے نہ صرف امریکہ سیاسی اکیلے پن کا شکار ہوا بلکہ ایران نے بھی امریکہ کی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کے مقابلہ میں زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی اختیار کر کے ٹرمپ حکومت کے جارحانہ رویہ کو ناکامی اور شکست سے دوچار کردیا۔
البتہ ٹرمپ حکومت کی خارجہ پالیسی کے لئے جان بولٹن کی حرکتیں صرف ایران اور جامع ایٹمی معاہدہ تک محدود نہیں تھیں۔ جان بولٹن سالوں سے اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی اداروں کے خلاف شدت پسندانہ رویہ کے حامل تھے۔ انہوں نے قومی سلامتی کے مشیر کے اپنے دور میں امریکی حکومت کو دیگر ہر زمانے سے زیادہ اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی اداروں کے خلاف محاذ آرائی میں الجھایا اور عالمی عدالت انصاف کے سلسلہ میں ان کا موقف ایک طرح سے بین الاقوامی قانونی نظام اور انسانی حقوق کے خلاف اعلانِ جنگ شمار کیا گیا۔ واشنگٹن اور کاراکاس کے تعلقات میں شدید بحران پیدا کرنے اور وینیزوئلا کے عبوری صدر کے عہدہ کے لئے خوان گوائیڈو کا نام پیش کرنے میں بھی جان بولٹن کا کردار تھا نیز شمالی کوریا، چین اور روس کے بارے میں ان کے مشورے لاحاصل رہے۔ مجموعی طور پر ان سب امور کی وجہ سے ٹرمپ حکومت کی سیکورٹی اور خارجہ پالیسی کو بدتر حالات سے بچانے کی غرض سے بالآخر وہائٹ ہاؤس سے جان بولٹن کی چھٹی کر دی گئی۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کیمپ ڈیوڈ آنے کی طالبان لیڈروں کو خفیہ دعوت کا ماجرا بھی، جو حالیہ ایام میں ٹرمپ کے لئے بڑی ہزیمت کا سبب بنا، بولٹن کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ وہائٹ ہاؤس میں سی این این ٹی وی چینل کی نمائندہ کیٹلن کولِنز نے اپنے ٹوئیٹر پینج پر لکھا ہے کہ ”دو باخبر ذرائع نے مجھے اطلاع دی ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ اور قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کے درمیان پیر کی رات کو کیمپ ڈیوڈ میں طالبان لیڈروں کی میزبانی کے مسئلہ پر شدید زبانی بحث ہوئی ہے۔
بہرحال، اب ٹرمپ کو آئندہ دنوں میں اپنا چوتھا قومی سلامتی کا مشیر مقرر کرنا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ جان بولٹن کی جگہ کون لےگا ٹرمپ حکومت کی خارجہ پالیسی اور سلامتی کے سلسلہ میں ممکنہ تبدیلیاں بہت اہمیت کی حامل ہوں گی۔ یہ مسئلہ 2020 کے صدارتی انتخابات تک امریکہ کی داخلہ پالیسی پر بھی اثر ڈالے گا اور اس کے عالمی نتائج بھی برآمد ہوں گے البتہ بشرطیکہ ٹرمپ امریکی صدر کی حیثیت سے جان بولٹن کے جنگ پسندانہ اور تباہ کن سائے سے خود کو نکال لیں۔