نتنیاہو کے دعوے کی مخالفت میں اسلامی تعاون تنظیم کا اجلاس
اسرائیل کے مقبوضہ علاقوں سے غرب اردن کے ایک حصے کو ضم کرنے پر مبنی صیہونی حکومت کے وزیر اعظم کے منصوبے کا جائزہ لینے کے لئے، گذشتہ روز پندرہ ستمبر کو سعودی عرب کے شہر جدہ میں اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ملکوں کے وزرائے خارجہ کا ہنگامی اجلاس منعقدہوا-
صیہونی حکومت کے وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے اپنے انتخابی کمپین کے دوران منگل کے روز کہا تھا کہ اگر وہ آئندہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئے تو وادی اردن کو اسرائیل میں ضم کر لیں گے۔
فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے نیتن یاہو کے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسرائیل کو سخت خبردار کیا ہے۔ محمود عباس کا کہنا تھا کہ اگر اسرائیل نے وادی اردن یا بحرالمیت سمیت کسی بھی فلسطینی علاقے کو ضم کرنے کی کوشش کی تو اسرائیل کے ساتھ ہونے والے تمام معاہدے منسوخ کردیں گے۔ تنظیم آزادی فلسطین کی ایگزیکیٹیو کمیٹی کی رکن حنان عشراوی نے نیتن یاھو کے اس اعلان کو فلسطینیوں کے خلاف اعلان جنگ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی علاقوں پر ڈاکہ زنی اور فلسطینیوں کی نسلی تطہیر شروع ہی سے نتین یاھو کا ایجنڈا رہی ہے۔ دوسری جانب اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے ترجمان فوزی برھوم نے کہا ہے کہ غاصب صیہونی حکومت کے خلاف فلسطینی عوام کی تحریک مزاحمت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔
نتنیاہو کے اس بیان پر اسلامی ملکوں نے بھی اپنا سخت ردعمل ظاہر کیا ہے اور سعودی عرب نے اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کا ہنگامی اجلاس طلب کیا جو کل جدہ میں منعقد ہوا - جدہ میں کل کے اجلاس کا انعقاد اور اس اجلاس میں وزرائے خارجہ کے اظہار خیال چند نکات کے حامل ہیں-
اول یہ کہ فلسطین کا مسئلہ بدستور عالم اسلام کا اہم ترین مسئلہ ہے اور فلسطین کی قانونی اراضی کو مقبوضہ سرزمینوں میں شامل کرنا کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ جسے صیہونی حکومت کسی درد سر کے بغیرانجام دے لے گی- سعودی عرب کے وزیر خارجہ ابراہیم العساف نے اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے ہنگامی اجلاس میں کہا کہ مسئلہ فلسطین بدستور اسلامی ملکوں کا اہم ترین مسئلہ ہے-
دوسرے یہ کہ اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے گذشتہ روز کے اجلاس میں کہا گیا کہ صیہونی حکومت کے جرائم کے مقابلے میں اسلامی ملکوں کا لچکدار موقف اور اسی طرح ان جرائم کی امریکہ کی جانب سے حمایت ، فلسطین کے مسئلے کے تعلق سے اسرائیل کے گستاخ ہونے خاص طور پر فلسطینی علاقوں کو مقبوضہ سرزمینوں میں شامل کرنے کے اعلان کا باعث بنی ہے- اسی سلسلے میں ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاووش اوغلو نے گذشتہ روز جدہ اجلاس میں نتنیاہو کے بیان کو شرمناک قرار دیا اور کہا کہ صیہونی حکومت بعض ملکوں کی حمایت کے سبب جسور ہوگئی ہے،اسی لئے وہ اپنی جارحانہ پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے اور ایک نسل پرست اور اپارتھائیڈ حکومت میں تبدیل ہو رہی ہے- اگر پوری امت مسلمہ اسرائیل کے جارحانہ اقدامات کے خلاف ایک آواز ہوکر ردعمل ظاہر کرتی تو امریکہ اور اسرائیل کی گستاخیاں اور جارحانہ پالیسیاں اس حد تک نہ پہنچتیں-
تیسرے یہ کہ جدہ اجلاس کے شرکاء نے کہا ہے کہ فلسطینی سرزمینوں سے متعلق اسرائیلی حکام کے بیانات اور اقدامات سلامتی کونسل کی قراردادوں کے منافی ہیں اور ضروری ہے کہ سلامتی کونسل اس سلسلے میں ٹھوس قدم اٹھائے- اسلامی تعاون کی تنظیم کے سیکریٹری جنرل یوسف بن احمد العثیمین Yusuf bin Ahmed al - Othaimeen, نے اس سلسلے میں کہا کہ صیہونی حکومت کے اقدامات سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہیں اور اس تنظیم کا اجلاس، عالم اسلام کے لئے فلسطین کے موضوع کی مرکزیت کو ظاہر کر رہاہے-
چوتھا نکتہ یہ ہے کہ جدہ میں اسلامی ملکوں کا اجلاس ممکن ہے کم از کم ان عرب ملکوں کو، جو صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے خواہاں ہیں، مشکل سے دوچار کردے اور یہ تعلقات برقرار نہ ہوسکیں-
اور پانچواں اور آخری نکتہ یہ ہے کہ صیہونی حکومت کے خلاف اسلامی ملکوں کی پالیسیاں اسی وقت موثر واقع ہوں گی کہ جب ان کی اعلان کردہ پالیسیاں عملی پالیسیوں میں تبدیل ہو جائیں۔ اگرچہ صیہونی حکومت کے جرائم کی زبانی طور پر بھی مذمت لازمی اقدام ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے کیوں کہ اس جارح اور غاصب حکومت نے بارہا یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ لفظی اور زبانی مذمت کو اہمیت نہیں دیتی- ساتھ ہی اگرچہ ترکی کے وزیر خارجہ کا یہ نظریہ ، کہ نتنیاہو کا بیان صیہونی حکومت کے پارلیمانی انتخابات کے موقع پر ووٹ مانگنے کے لئے ہے، ایک صحیح نظریہ ہے لیکن نتنیاہو کے اس بیان کو کنڈم کرنے اور فلسطین کی ارضی سالمیت کے تحفظ کے لئے صیہونی حکومت کے مقابلے میں تمام اسلامی ملکوں کا متفق اور متحد ہونا ضروری ہے-