Oct ۱۵, ۲۰۱۹ ۱۷:۰۰ Asia/Tehran
  • ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری کی نظر میں علاقے کی سلامتی

ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری علی شمخانی نے کہا ہے کہ مشرق وسطی کا علاقہ امریکہ کے بغیر زیادہ پرامن ہوگا-

ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری علی شمخانی نے شمالی شام سے امریکی فوجیوں کے انخلا کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ مغربی ایشیا کا علاقہ امریکہ کے بغیر زیادہ پرامن ہوگا۔

انہوں نے اپنے ذاتی ٹوئٹ پر تحریر کیے جانے والے ایک پیغام میں کہا کہ امریکہ کو مشرق وسطی میں آنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ان کا کہنا تھا کہ امریکی حکام نے پچھلے دو ماہ کے دوران جو بیانات دیئے ہیں ان میں مغربی ایشیا میں اپنی فوجی موجودگی کے احمقانہ ہونے کا اعتراف  کیا گیا ہے۔

ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری نے کہا کہ مشرق وسطی کی تقسیم، سینچری ڈیل، ایران میں حکومت کی تبدیلی کی خام خیالی، سعودی عرب کو علاقے کا تھانیدار بنانے کا منصوبہ، جنگ یمن، افغانستان میں نام نہاد امن کے قیام اور بحران شام جیسی تمام امریکی سازشیں بری طرح ناکام ہوچکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکی حکام کو اچھی طرح  معلوم ہوگیا ہے کہ ان کے پاس اب سپر پاور والی طاقت نہیں ہے اور پہلے والی پوزیشن پر واپس جانا امریکہ کے لیے ناممکن ہے۔

علاقے میں امریکی کارکردگی سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ ظاہری دعووں کے برخلاف امریکہ کبھی بھی امن قائم کرنے یا دہشت گردی کی بیخ کنی کے درپے نہیں رہا ہے- امریکہ ، دہشت گرد گروہ داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں  اور آل سعود کے ساتھ مل کر روزانہ یمن کے مظلوم و بے گناہ اور نہتے عوام کا خون بہا رہا ہے اور اس طرح اس نے اپنی جارحانہ ماہیت کو ظاہر کردیا ہے- امریکہ درحقیقت مغربی ایشیا پر گذشتہ چند عشروں کے دوران مسلط کی جانے والی جنگوں ، بحرانوں اور تنازعات کا اصلی سبب ہے- افغانستان، عراق ، شام اور یمن کے خلاف جنگیں بھی امریکہ کی غلط پالیسیوں کا ہی نتیجہ تھیں-

اس وقت بھی امریکہ، مشرق وسطی کے علاقے میں سلامتی کے تحفظ کے لئے فوجی اتحاد تشکیل دینے کا جو ڈرامہ رچ رہا ہے اگرچہ اس کا عملی جامہ پہننا بعید معلوم ہوتا ہے لیکن اس کی ماہیت، خلیج فارس کے علاقے میں مزید بدامنی پھیلانے کے لئے ہے-

امریکہ اپنے غیرعاقلانہ اقدامات اور پالیسیوں نیز عالمی قوانین کی خلاف ورزی کے ذریعے درحقیقت علاقے کو بدامنی کی جانب لے جا رہا ہے اور ان غیرقانونی اقدامات کا ذمہ دار، امریکہ ہے- ان تمام مداخلتوں میں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ واشنگٹن علاقے کو بدامنی سے دوچار کرنا چاہتا ہے-

پندرہ سال قبل ممتاز سیاسی تجزیہ نگار اور نظریہ پرداز ساموئل ہینٹینگٹن نے فارن افیئرز جریدے میں خبردار کیا تھا کہ دنیا کے بیشتر لوگوں کی نظر میں امریکہ ایک سرکش سپر طاقتور میں تبدیل ہورہا اور عالمی معاشروں کے لئے واحد سب سے بڑا بیرونی خطرہ ہے۔

امریکہ کے مشہور نظریہ پرداز نوآم چامسکی بھی ایک تجزیے میں کہتے ہیں- سرکش اور قانون شکن ممالک علاقے میں لوٹ مار اور وحشی گری میں مشغول ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ ان کے جارحانہ اور تشدد پسندانہ اقدامات کے مقابلے میں کسی کی مزاحمت برداشت کریں- ان ملکوں میں سرفہرست امریکہ اور اسرائیل ہیں اور سعودی عرب بھی ان کے جرائم میں شریک ہونے کے لئے ہاتھ پیر مار رہا ہے- 

رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نےاپنے بیانات میں بارہا فرمایا ہے کہ امریکہ علاقے میں امن قائم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا- اور اس کی واضح مثال افغانستان میں چودہ برسوں سےاس کی موجودگی ہے کہ جو نہ صرف افغان عوام کے لئے سلامتی کے پیغام کی حامل نہیں رہی ہے بلکہ اس نے سیکورٹی کی صورتحال کو بدتر کردیا ہے-

تجربے سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ علاقے میں پائیدار سلامتی، اغیار کے توسط سے قائم نہیں ہوسکتی بلکہ علاقے میں پائیدار سلامتی علاقے کے ملکوں کےتعاون سے اور ان ملکوں کی دفاعی صلاحیتوں سے فراہم ہوگی- اس سلسلے میں ایران کی اسٹریٹجی، باہمی تنازعات اور علاقائی بحرانوں کی روک تھام کرنا ہے-
اسی سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر حسن روحانی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے چوہترویں اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے " امید الائنس " اور " ہرمز پیس فارمولہ " پیش کیا تھا- اس سے پہلے بھی اسلامی جمہوریہ ایران ، علاقے میں پائیدار امن کے قیام اور درپیش چیلنجوں سے مقابلے کے لئے خلیج فارس میں علاقائی ڈائیلاگ فورم کی تجویز پیش کرچکا ہے-

ٹیگس