شام کے خلاف ترکی کی بے بنیاد دھمکیاں جاری
ترک حکومت کے اعلی عہدیداروں کے توسط سے، شام کے اقتدار اعلی اور ارضی سالمیت کے تحفظ کے خلاف دھمکیوں کا سلسلہ جاری ہے-
اسی سلسلے میں ترک صدر کے مشیر یاسین اوکتائے نے دھمکی دی ہے کہ شامی فوج کا ان علاقوں میں داخل ہونا کہ جہاں سے ترک حکومت کے کرد مخالفوں نے پسپائی اختیار کی ہے، انقرہ کے خلاف اعلان جنگ کے مترادف ہے-
شام کی سرزمین کے بعض حصوں کے تعلق سے، شامی فوج کے خلاف ترکی کے اس اعلی عہدیدار کا بیان ایسے میں سامنے آیا ہے کہ اس سے قبل انقرہ کے حکام نے دعوی کیا تھا کہ وہ شام کی سرزمین کو للچائی نظروں سے نہیں دیکھ رہے ہیں اور نہ ہی شام کی تقسیم کے خواہاں ہیں لیکن موجودہ حالات میں انقرہ کے حکام ، دمشق حکومت اور شام کی فوج کو دھمکیاں دینے کے علاوہ ، ان علاقوں میں وہ نئے تربیتی اور شہری ترقیاتی مراکز کے قیام کی بات کر رہے ہیں- ساتھ ہی ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ ترک حکام کا ارادہ ہے کہ شام کے شمالی اور شمال مشرقی علاقوں کی آبادی کے تناسب کو ترکی کے طویل المدت مفادات کے حق میں تبدیل کردیں- ظاہر سی بات ہے کہ یہی مسئلہ شام کی تقسیم کے خطرے کو بڑھا سکتا اور اس ملک میں امریکی اہداف کو عملی جامہ پہنا سکتا ہے-
شام اور عراق کی سرزمین پر اسلامی جمہوریہ ایران کے فوجی مشیروں اور روسی فوج کی مدد و حمایت سے، داعش دہشت گردوں کو شکست دینے کے بھاری اخراجات کے باوجود، شام پر ترکی کے حملے سے یہ خوف پیدا ہوگیا ہے کہ تکفیری گروہوں سے وابستہ مسلح دہشت گرد شام کے شمالی اور شمال مشرقی علاقوں سے فرار کرجائیں اور امریکہ کی مالی اور فوجی مدد سے دوبارہ خود کو عراق، افغانستان اور وسطی ایشیا کی جمہوریاؤں میں پہنچا دیں- واضح سی بات ہے کہ علاقے کی آزاد و خودمختار حکومتوں کو اس تعلق سے تشویش لاحق ہے- تاہم ایسا سمجھا جا رہا ہے کہ انقرہ کے حکام کو صرف ترکی کے مفادات کی فکر ہے - اسی سلسلے میں ترکی کی گیرسن یونیورسٹی کے بین الاقوامی تعلقات فیکلٹی کے رکن اورممتاز سیاسی ماہر نے شام کی تقسیم کے لئے امریکی منصوبوں کو شکست خوردہ بتایا ہے- شام میں رونما ہونے والی تبدیلیوں اور اس ملک میں فوجی مداخلتوں کے تعلق سے عباس کارا آغا چلی کا کہنا ہے امریکہ شام میں دہشت گرد گروہوں کی حمایت کے ذریعے اس ملک کی تقسیم کے درپے تھا جس میں اسے شکست نصیب ہوئی ہے - درحقیقت خارجہ پالیسی میں امریکی رویہ اس حد تک غیر عاقلانہ رہا ہے کہ شام میں اپنے فوجی تعینات کرنے کے واشنگٹن کے مذموم عزائم بھی دنیا کے ملکوں پر آشکارہ ہوگئے ہیں-
ایسے حالات میں کہا جا سکتا ہے کہ شام کے شمالی علاقوں کی زمینوں کے بعض حصوں میں شامی فوج کی موجودگی کے تعلق سے یاسین اوکتائے کا دھمکی آمیز بیان اس امر کا آئینہ دار ہے کہ انقرہ کے حکام شمالی شام پر قبضے کے ذریعے دیگر مذموم عزائم رکھتے ہیں- یہ ایسی حالت میں ہے کہ شام کے صدر بشار اسد نے دمشق میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے خصوصی ایلچی الکزینڈر لاورنتیف کے ساتھ حال ہی میں ہونے والی ملاقات میں ایک بار پھر کہا ہے کہ شام میں اغیار کی فورسیز خاص طورپر امریکی اور ترک افواج کی موجودگی بین الاقوامی قانون کے مطابق غاصبانہ شمار ہوتی ہے اور یہ شام کی قوم کا حق ہے کہ ان کے مقابلے میں مزاحمت کریں-
ترکی کے اقدامات پر بشار اسد کے قانونی ردعمل سےممکن ہے ایک نیا بحران وجود میں آنے کے لئے حالات سازگار ہوجائیں کہ جس کے ذمہ دار ترکی اور امریکی حکام ہوں گے- کیوں کہ انقرہ اور واشنگٹن کے حکام علاقے کی حکومتوں اور قوموں کے مفادات پر توجہ کئے بغیر شام کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کر رہے ہیں-