Nov ۰۴, ۲۰۱۹ ۱۷:۰۱ Asia/Tehran
  • متحدہ عرب امارات، مزاحمت کے خلاف جنگ سے سازش تک

متحدہ عرب امارات نے یمن کے خلاف جنگ میں مشارکت کے بعد، لبنان اور عراق کے خلاف سازش میں بھی فعال کردار ادا کیا ہے-

متحدہ عرب امارات کی حکومت ، یمن کے خلاف جنگ میں سعودی عرب کا اہم ترین اتحادی ہے- کہا جا سکتا ہے کہ متحدہ عرب امارات نے یمن کے خلاف جنگ میں سعودی عرب کے برخلاف کسی حد تک ہوشیاری سے عمل کیا ہے کیوں کہ اس نے یمن کی مستعفی حکومت پر اعتماد نہیں کیا اور نئے گروہ کو منظم کیا کہ جو صرف ابوظہبی سے وابستہ ہے ۔ منجملہ ان گروہوں کے یمن کی جنوبی عبوری کونسل ہے- جب متحدہ عرب امارات نے یمن کے خلاف جنگ میں سعودی اتحاد کی شکست کو تسلیم کرلیا اور یمن سے اپنی فوج کو نکالنے کا اعلان کردیا اس وقت اس نے جنوبی یمن میں اپنے ایجنٹوں کی حمایت جاری رکھی لیکن سعودی عرب کو عملی طور پر تنہا چھوڑ دیا-

اس کے ساتھ ہی متحدہ عرب امارات اس وقت ایک طرف جنوبی یمن میں ابوظبی سے وابستہ ایجنٹوں اور مستعفی حکومت کے درمیان لڑائی کا مشاہدہ کر رہا ہے تو دوسری جانب جنوبی یمن کے بعض علاقوں میں ابوظہبی کے خلاف احتجاجات میں اضافے کا بھی مشاہدہ کر رہا ہے- اسی سلسلے میں یمنی جزیرے سقطری کے عوام نے مظاہرے کرکے متحدہ عرب امارات کو غاصب بتایا اور اس جزیرے سے امارات کی فوج کے نکل جانے کا مطالبہ کیا ہے- سقطری کے گورنر رمزی محروس نے اپنے فیس بک پیج پر متحدہ عرب امارات سے وابستہ جنوبی عبوری کونسل کی فوج کو جزیرہ نما ئے سقطری سے نکل جانے کی بابت خبردار کیا ہے -

اس کے باوجود، متحدہ عرب امارات نے علاقے میں اپنے آشوب برپا کرنے والے تازہ ترین اقدام میں ایک بار پھر ریاض اور امریکہ کی پالیسیوں سے ہم آہنگ ہوکر لبنان اور عراق میں مظاہرہ کرنے والوں کی حمایت کی ہے اور مظاہرین کو سڑکوں پر تشدد کے لئے اکسایا ہے- اسی سلسلے میں عراقی ریڈیو نے اعلان کیا ہے کہ عراق کے انٹلی جنس ادارے نے ایک نیٹ ورک اور ایک جاسوسی کی ٹیم کو گرفتار کیا ہے کہ جو متحدہ عرب امارات کی انٹلی جنس سے وابستہ ہے- 

اس نیٹ ورک کے جاسوس ، بغداد کے التحریر اسکوائر اور عراق کے دیگر شہروں میں مظاہرین کے درمیان موجود تھے کہ جو مظاہرین کی مالی حمایت کے ساتھ ہی ان کو عراق کی حکومت کے خلاف منظم کر رہے تھے- لبنان کی العہد ویب سائٹ نے بھی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات لبنان میں مظاہروں کے اخراجات کا اہم حصہ ادا کر رہا ہے اور روزانہ مظاہرہ کرنے والے ہر فرد کو سو سے ڈیڑھ سو ڈالر دے رہی ہے یا پھر ان کے کھانے پینے کا انتظام کر رہا ہے-

علاقے میں متحدہ عرب امارات کے توسط سے آشوب اور افراتفری پیدا کرنے والا رویہ، موجودہ حالات میں سب سے زیادہ دو مسئلے کو بیان کر رہا ہے-

اول یہ کہ متحدہ عرب امارات، اپنی علاقائی پالیسی میں بوکھلاہٹ کا شکار ہوگیا ہے کیوں کہ وہ سعودی اتحاد کی ناکامی کے بعد یمن سے تو خارج ہوگیا اور کسی حد تک اس نتیجے پر پہنچا کہ علاقے میں بدامنی اور افراتفری کے ماحول کے با‏عث، متحدہ عرب امارات میں امن و سلامتی اور اس کے اقتصادی مفادات پورے نہیں ہوں گے- اس کے باوجود لبنان اور عراق میں وہ تشدد اور بدامنی کو ہوا دے رہا ہے-

دوسرے یہ کہ متحدہ عرب امارات چونکہ خود مستقل طور پر، آزادانہ علاقائی پالیسی پر عمل پیرا نہیں ہوسکتا  اس لئے وہ سعودی عرب ، امریکہ اور صیہونی حکومت کے ساتھ مل کر اپنی علاقائی پالیسی تیار کر رہا ہے- علاقائی پالیسی میں یہ عدم استقلال اور آزادی کا فقدان، ایسی حالت میں ہے کہ ابوظہبی کا دعوی ہے کہ وہ علاقے پراثرانداز ہونے والے ایک کھلاڑی کا رول ادا کرسکتا ہے-

ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ ابو ظہبی نے یمن کے خلاف سعودی اتحاد کی شکست سے عبرت حاصل نہیں کی ہے اور ابھی اسے علاقے میں آشوب اور افراتفری پیدا کرنے والی علاقائی پالیسی سے اجتناب اور دیگر ملکوں کے داخلی امور میں  مداخلت سے باز رہنے کے لئے، ایک بار پھر جھٹکا لگنے کی ضرورت ہے-      

ٹیگس