افغانستان کے انتخابی عمل میں ممکنہ تشدد سے مقابلے پر تاکید
افغانستان کی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ اس ملک کی حکومت، صدارتی انتخابات کے عمل میں کسی بھی ممکنہ تشدد کے مقابلے کے لئے تیار ہے-
اسداللہ خالد نے یہ بات کابل میں کہی کہ بعض لوگوں کو اس بات کا خوف ہے کہ صدارتی امیدواروں کی انتخابی کمیٹیوں کے بعض اراکین کے توسط سے، انتخابی عمل بحران میں تبدیل نہ ہوجائے-انہوں نے کہا کہ بحران کے وجود میں آنے کی صورت میں افغانستان کی دفاعی اور سیکورٹی فورسز اس بات کی اجازت نہیں دیں گی کہ کسی قسم کا تشدد عوام کی زندگی میں خلل ڈال سکے-افغانستان کی قومی اتحاد حکومت کے ایک سینئر عہدیدار نے حال ہی میں کہا تھا کہ صدارتی انتخابات کے عمل کی صورتحال، کنٹرول سے باہر ہے اور بحران پیدا ہونے کی روک تھام کی جانی چاہئے-
افغانستان کے انتخابات کے ابتدائی نتائج کے اعلان کو تین بار التوا میں ڈالے جانے کے پیش نظر صدارتی انتخابی عمل کا بحرانی ہونا، عوام اورسیاسی شخصیتوں اور گروہوں میں تشویش کا باعث بنا ہے کہ جو ممکن ہے 2014 میں ہونے والے صدارتی انتخابات جیسی سیاسی و سماجی صورتحال پیدا ہوجائے اور متنازعہ اور کشیدہ حالات پیدا ہوسکتے ہیں-
واضح رہے کہ افغانستان کے الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخابات کے تقریبا ایک ہزار ایک سو اسی پولنگ بوتھوں میں ڈالے گئے ووٹوں کو کینسل کر دیا ہے۔ افغانستان کے الیکشن کمیشن نے اتوار کو ایک بیان میں کہا ہے کہ دوہزار چارسو ووٹنگ مراکز میں سے ایک ہزار ایک سو انہتر ووٹنگ مراکز نان بائیومیٹرک ہونے کی بنا پر الیکشن کمیشن کے لئے غیرمعتبر ہیں اور الیکشن کمیشن کسی بھی گروہ اور ادارے کے زیراثر نہیں ہے۔ افغانستان کے الیکشن کمیشن نے تاکید کی ہے کہ جب تک اٹھائیس ستمبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات کی گنتی مکمل نہیں ہو جاتی اس وقت تک اس کے ابتدائی نتائج کا اعلان نہیں کیا جائےگا۔ الیکشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے چوبیس صوبوں کی رائےشماری مکمل ہوچکی ہے اور تین صوبوں میں اب بھی جاری ہے- تاہم الیکشن کمیشن نے سات صوبوں کی دوبارہ گنتی روک دی ہے۔ افغانستان کے صدارتی انتخابات کے ابتدائی نتائج اب تک تین بار ملتوی کئے جا چکے ہیں۔
اس امر کے پیش نظر کہ بعض ٹیموں اور انتخابات کے نامزدامیدواروں نے اعلان کیا ہے کہ اگر صدارتی انتخابات کے حتمی نتائج نان بائیو میٹرک گنتی پر مبنی ہوں گے تو ، وہ اعلان کردہ نتائج کو قبول نہیں کریں گے، یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ افغانستان کا انتخابی عمل بحران اور چیلنج سے دوچار ہوجائے اور اس کے نتیجے میں انتخابات کے نامزد امیداروں کے حامیوں کے درمیان جھڑپیں شروع ہوجائیں-
البتہ اس امر پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ افغانستان کے صدارتی انتخابات کے عمل کا بحرانی ہونا محض، نان بائیو میٹرک ووٹوں کی گنتی ہی نہیں ہے- بلکہ صدارتی انتخابات میں کابل میں اقوام متحدہ کے نمائندہ دفتر اور اس ملک میں امریکی سفیر کی بیجا مداخلتیں اور اسی طرح افغانستان کے آزاد الیکشن کمیشن کے سربراہ کے بدلتے ہوئے مواقف، وہ جملہ عوامل ہیں کہ جو انتخابات کے عمل کو بحرانی بنا سکتے ہیں-
ان ہی حالات کے پیش نظر افغانستان کی وزارت دفاع کے سرپرست نے انتخابی عمل میں ممکنہ تشدد سے مقابلے پر تاکید کرتے ہوئے عوام کو اطمئنان دلایا ہے کہ ان کی معمول کی، روزمرہ کی زندگی متاثر نہیں ہوگی- ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ انتخابی کمیٹیوں کے عہدیداروں کے ساتھ نامزد صدارتی امیدواروں کی مشترکہ میٹنگیں ، ممکن ہے ملک کی سیاسی و سماجی بحران پیدا ہونے میں مددگار ثابت ہوں-