ایران کے ہتھیاروں پر عائد پابندیوں کی مدت میں توسیع پر روس کی مخالفت
ایٹمی معاہدے کی رو سے، ایران کے خلاف ہتھیاروں پر عائد پابندی اٹھارہ اکتوبر 2020 کو ختم ہو رہی ہیں - لیکن امریکہ کہ جو مئی 2018 میں اس معاہدے سے نکل چکا ہے اس مسئلے کی بہت شدت سے مخالفت کر رہاہے ، چنانچہ واشنگٹن کے اس رویے پر ماسکو نے شدید تنقید کی ہے-
اسی سلسلے میں روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف نے 26 دسمبر کو اعلان کیا کہ ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی ہتھیاروں کی پابندی کی مدت آئندہ سال ختم ہو رہی ہے اور اس مدت میں کسی قسم کی توسیع درکار نہیں ہے- ریابکوف نے کہا کہ وعدے کی وفا اور پاسداری کی پابندی کے اصول کے مطابق ایٹمی معاہدے کے دائرے میں، ایران اور دیگر فریقوں کے درمیان جو معاہدہ طے پایا ہے ، اور سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کی رو سے بھی ، ایران کے خلاف عائد ہتھیاروں کی پابندی ختم کرنے کے وعدے کو عملی جامہ پہنایا جائے-
ان کے بقول وہ چیز جو ہتھیاروں کی نام نہاد پابندی ختم نہ کرنے کے بارے میں کہی جا رہی ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایران پر ہتھیاروں کی برآمدات پر بھی پابندی ہے اور معاہدے کی رو سے 2020 میں یہ مدت ختم ہونے سے ہتھیاروں کی درآمدات اور برآمدات پر عائد دونوں پابندیاں ختم ہوجائیں گی اور اس کی مدت میں مزید توسیع درکار نہیں ہے-
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراداد بائیس اکتیس کے مطابق ایران سے ہتھیاروں کی اکسپورٹ یا امپورٹ پر پانچ سال کے لئے پابندی عائد ہے- یہ پابندی اکتوبر 2020 میں ختم ہو رہی ہے - ایران پر عائد ہتھیاروں کی پابندی کی مدت ختم ہونے کا وقت نزدیک آنے کے ساتھ ہی ٹرمپ انتظامیہ بھی حرکت میں آگئی ہے تاکہ اپنے زعم ناقص میں دیگر ملکوں کو اکساکرایران کے خلاف عائد ہتھیاروں کی پابندی کی مدت میں مزید توسیع کے حالات فراہم کرے- واشنگٹن ایٹمی معاہدے کو کمزور یا اسے نابود کرنے کے مقصد سے عالمی اتفاق رائے حاصل کرنے میں کوشاں ہے- یہ ایسے میں ہے کہ گروپ فور فور پلس ون میں سے کسی بھی ملک نے ایران کے خلاف عائد ہتھیاروں کی پابندی ختم کرنے سے متعلق کسی طرح کا اعتراض نہیں کیا ہے بلکہ یہ ممالک اس حوالے سے امریکہ کے اعتراض اور تشویش کو بلاجواز سمجھتے ہیں-
ایران کے ہتھیاروں پر پابندی ختم کرنے کی ضرورت پر روس کی تاکید بھی سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کے دائرے میں ہے- اس کے بالمقابل امریکہ کے سینئر حکام منجملہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو ہیں کہ جنہوں نے گذشتہ مہینوں کےدوران بارہا ایران کے ہتھیاروں پر عائد پابندی کی مدت میں توسیع کا مطالبہ کیاہے- پمپئو نے ایک ٹویئٹ میں رواں سال بارہ اگست کو ایران کے ہتھیاروں پر عائد پابندی کی پانچ سالہ مدت کے ختم ہونے پر خبردار کیا ہے- پمپئو نے اپنے ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ وقت تیزی سے گذر رہا ہے اور سلامتی کونسل کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف عائد ہتھیاروں کی پابندی کی مدت ختم ہونے میں زیادہ وقت نہیں بچا ہے-امریکی وزیر خارجہ نے رواں سال اٹھارہ اکتوبر کو بھی ، ایران پر سلامتی کونسل کی ہتھیاروں کی پابندی کی مدت ختم ہونے کو علاقے میں ہتھیاروں کی دوڑ کا باعث قراردیا تھا-
پمپئو نے ایک پیغام میں لکھا کہ ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی جانب سے ہتھیاروں پر پابندی کی مدت ، معیوب ایٹمی معاہدے کے باعث ایک سال کے بعد ختم ہو رہی ہے جس سے روس اور چین جیسے ملکوں کو یہ موقع حاصل ہوجائے گا کہ وہ ایران کو جدیدترین ہتھیار فروخت کریں- اور ایران کی حکومت کو بھی آزادی مل جائے گی کہ جس کو چاہے ہتھیار فروخت کرے-
امریکہ مغربی ایشیا کے علاقے میں سب سے زیادہ ہتھیار بیچنے والا ملک ہے اور اس نے گذشتہ چند برسوں کے دوران خلیج فارس کے ملکوں کو دسیوں ارب ڈالر کے ہتھیار فروخت کئے ہیں- ٹرمپ نے مئی 2017 میں صرف اپنے دورۂ سعودی عرب کے موقع پر ایک سو دس ارب ڈالر کے ہتھیار سعودی حکومت کو فروخت کرنے کے معاہدے پر دستخط کئےتھے- اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے امریکہ کے توسط سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو بھاری پیمانے پر ہتھیاروں کی فروخت کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کی پالیسیوں نے علاقے میں امن کو خطرے سے دوچار کردیا ہے ۔ امریکہ نے علاقے کو بارود کے ڈھیرمیں تبدیل کردیا ہے-
یہ ایسی حالت میں ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے برسوں سے اقوام متحدہ کی وسیع پابندیوں کے باعث، کسی ملک سے کوئی ہتھیار نہیں خریدا ہے بلکہ اپنی مقامی صلاحیتوں اور گنجائشوں پر انحصار کرتے ہوئے انواع و اقسام کے بری ، بحری اور فضائی ہتھیاروں ، میزائیلوں اور الیکٹرونیک سامانوں کو خود ہی بنایا ہے اور حتی اپنے بعض ہتھیاروں کو برآمد کرنے کی بھی صلاحیت پیدا کرلی ہے- درحقیقت واشنگٹن کو ایران کی دفاعی طاقت کے مزید مستحکم ہونے سے خوف لاحق ہے اور اسی سبب سے سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس کے برخلاف، ایران کے ہتھیاروں پر پابندی کی مدت میں توسیع پر مبنی اپنے ناجائز مطالبے پر مصر ہے-