Jul ۱۶, ۲۰۲۱ ۱۰:۰۲ Asia/Tehran
  • کیا وجہ ہے کہ ہندوستان طالبان سے مذاکرات کر رہا ہے؟

پاکستان کے مشہور تجزیہ نگار اور صحافی حامد میر نے واشنگٹن پوسٹ میں ایک مقالہ لکھا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ بیس سال  پہلے کوئی یہ سوچ بھی نہيں سکتا تھا کہ طالبان اور امریکا کے درمیان امن معاہدے پر دستخط ہوں گے۔

اسی طرح اس وقت یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ ہندوستان جیسا جمہوری ملک، جمہوریت سے نفرت کرنے والے طالبان سے گفتگو کر رہا ہے۔

حالیہ دنوں میں میڈیا میں یہ رپورٹیں آئی ہیں کہ ہندوستان اور طالبان کے درمیان خفیہ رابطے ہوئے ہیں حالانکہ ہندوستانی حکام اس بارے میں کھل کر بیان نہیں دے رہے ہیں تاہم کچھ بڑی وجوہات ہیں جن کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ دونوں کے درمیان رابطہ ہے۔

حامد میر کے مطابق طالبان سے ہندوستان کے رابطے کا ماضی پرانا ہے اور اس چیز سے پاکستان کو پریشانی ہے جو افغانستان میں ہندوستان کے کردار کو محدود کرنا چاہتا ہے۔

ہندوستانی حکام نے پہلی بار طالبان سے رابطہ 2013 میں کیا تھا جب نئی دہلی نے طالبان رہنما عبد السلام ضعیف کو تبادلہ خیال کے لئے ہندوستان بلایا تھا۔ ضعیف ماضی میں پاکستان میں طالبان کے سفیر کی ذمہ داری ادا کر چکے ہیں تاہم 11 ستمبر کے حملوں کے بعد پاکستان حکومت نے صعیف کو گرفتار کر لیا تھا اور انہیں امریکا کے حوالے کر دیا تھا۔ اس کے بعد ضعیف نے 2010 میں ہندوستان میں اپنی کتاب شائع کی طالبان کے ساتھ میری زندگی۔

اس کے بعد صعیف کا نام اقوام متحدہ کی دہشت گردوں کی فہرست سے نکال دیا گیا۔ ضعیف ہندوستان کے دورے پر جانے کے لئے تیار کیوں ہوئے اور ہندوستان نے انہیں اس کی اجازت کیوں دی؟ اس کے جواب میں حامد میر کا کہنا ہے کہ 11 ستمبر کے بعد طالبان کے بارے میں ہندوستان کا اسٹینڈ بدلا تو یہ بات طالبان کو پسند نہيں آئی۔

ضعیف نے اپنی کتاب میں پاکستانی سیکورٹی ایجنسیوں کے بارے میں لکھا کہ ان کے یہاں ایک منہ میں دو زبانیں ہیں۔ ان کے ایک سر پر دو چہرے ہیں تاکہ وہ ہر کسی سے اس کے حساب سے بات کریں اور سب کو دھوکہ دیں۔

ہندوستان نے افغانستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ لگا رکھا ہے اب اگر طالبان سے اپنے رشتے سدھارنے کے لئے ہندوستان ٹھوس قدم نہيں اٹھاتا ہے تو اس کی سارا سرمایہ برباد ہو جائے گا۔

خود امریکا نے ہندوستان کو تیار کیا ہے کہ وہ طالبان سے بات کرے۔ ہندوستان کے حکام اپنی اس تشویش کے بارے میں بتا چکے تھے کہ امریکا کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد کشمیر میں علیحدگی پسندی کی لہر مزید تیز ہوگئی۔ طالبان نے کہا ہے کہ وہ کشمیر میں مداخلت نہيں کریں گے۔ ویسے طالبان کو یہ پتہ تھا کہ ہندوستان، اشرف غنی کی حکومت کی فوجی مدد کر رہا ہے اور اس بارے میں انہوں نے ہندوستان کو خبردار بھی کیا تھا۔

* سحر عالمی نیٹ ورک کا تجزیہ نگار کے موقف سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے*

ٹیگس