مغربی ایشیا میں ہتھیاروں کا انبار تشویشناک ہے
اسلامی جمہوریہ ایران نے کہا ہے کہ مغربی ایشیا میں ہتھیاروں کی خرید و فروخت اور اسلحے کی دوڑ تشویشناک ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے نائب وزیرخارجہ سید عباس عراقچی نے تہران میں ایک بین الاقوامی سمینار کو خطاب کرتے ہوئے جو مغربی ایشیا میں علاقائی سلامتی اور ہتھیاروں کی دوڑ کے عنوان سے منعقد ہوا کہا کہ علاقے میں جگہ جگہ جاری جنگوں اور ہر مقام پر پیدا کئے جارہے بحرانوں میں ہتھیاروں کے سوداگروں کا ہاتھ دیکھا جاسکتاہے۔
انہوں نے علاقائی سلامتی اور علاقے میں ہتھیاروں کی بھرمار کے خطرات کے بارے میں ایران کے نقطہ نگاہ کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہتھیاروں کی فروخت میں مغربی ملکوں کی ایک دوسرے پر سبقت اور اس سے حاصل ہونےوالا منافع وہ جملہ عوامل ہیں جس کی وجہ سے یہ ممالک مشرق وسطی میں ہمیشہ بحران پیدا کرنےاورعلاقائی سطح پر کشیدگی کو ہوا دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
امریکی صدر ٹرمپ کے پہلے دورہ سعودی عرب میں چار سو ارب ڈالر مالیت کا معاہدہ اس سلسلے میں ایک قابل غور نکتہ ہے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ صیہونی حکومت اس موقع سے فائدہ اٹھاکر اپنی دھمکی آمیز پالیسیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے اور وہ عام تباہی پھیلانے والے اور غیر قانونی ہتھیاروں کا انبار لگانے میں مصروف ہے۔
ایران کے نائب وزیرخارجہ نے اس سمینار میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جو اندازہ لگایا گیا ہے اس کے مطابق صیہونی حکومت کے پاس چار سو تک ایٹمی وارہیڈز موجود ہوسکتے ہیں۔
اس درمیان سعودی عرب کی ایما پر علاقے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے پس پردہ کوششوں اور حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ علاقے کوبحران سے دوچار کرنے اور بدامنی پھیلانے میں اصلی منصوبہ ساز امریکا اور صیہونی حکومت ہیں۔
اس سلسلے میں ایران کے سینیئر نظریہ پرداز بہزاد احمدی کہتے ہیں کہ پچھلے چند برسوں میں امریکا نے خارجہ پالیسی کے میدان میں یہ حکمت عملی اپنائی ہے کہ وہ خود براہ راست میدان میں نہیں آتا بلکہ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے علاقے میں اپنے اتحادیوں سے کام لیتا ہے اور یوں امریکا کو زیادہ اقتصادی فائدہ پہنچتا ہے۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ علاقے میں امن و استحکام کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ سیکورٹی خطرات کو صحیح اور جامع طریقے سے پہچانا جائے اور علاقائی سطح پر مضبوط اتحاد قائم کیا جائے اور اس کے لئے ایک طویل المیعاد اور اسٹریٹیجیک منصوبہ تیار کیا جائے۔
سیکورٹی اور سلامتی کے قیام کے بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف ہمیشہ یہی رہا ہے کہ علاقے کی سیکورٹی علاقے کے ملکوں کے باہمی تعاون سے ممکن ہے اور بحران شام کے حل کے لئے ایران روس اور ترکی کا سہ فریقی تعاون اس کے اس دعوے کی بہترین دلیل ہے کیونکہ بحران شام کے حل میں ان ملکوں کا تعاون کافی کامیاب رہا ہے۔