امریکی خلاف ورزیوں پر ایران کا جواب دوٹوک : ایڈمیرل شمخانی
اسلامی جمہوریہ ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سکریٹری علی شمخانی نے کہا ہے کہ ایران اپنی دفاعی توانائیوں میں اضافے کا سلسلہ جاری رکھےگا اور یورپ کو چاہئے کہ وہ امریکا اور صیہونی حکومت کے جھانسے میں نہ آئے۔
ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری ایڈمرل علی شمخانی نے یورپ کو خبردار کیا کہ وہ امریکا اور صیہونی حکومت کے جھانسے میں نہ آئے اور ایٹمی معاہدے کی حفاظت کے بہانے ان کے کسی بھی مطالبے پرحامی نہ بھرے۔ علی شمخانی نے کہا کہ ایران اپنی دفاعی صلاحیتوں اور توانائیوں میں اضافے کا عمل جاری رکھےگا۔
ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری علی شمخانی نے تہران میں عمان کے وزیر خارجہ یوسف بن علوی سے ملاقات میں کہا کہ ایران کی دفاعی توانائیوں کی تقویت کا عمل خاص طور پر میزائلی پروگرام، جو دفاعی نوعیت کا ہے قومی سلامتی کے تقاضوں کے مد نظر پوری قوت کے ساتھ جاری رہے گا اورپروپیگنڈا مہم کا ہمارے عزم و حوصلے پر کوئی اثر نہیں پڑےگا۔ انہوں نے ایٹمی معاہدے کے بارے میں امریکا کے غیر قانونی اقدامات اور وعدہ خلافیوں اور واشنگٹن کے مقابلے میں یورپ کے معذرت خواہانہ رویّے کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ ایران ایٹمی معاہدے کے تعلق سے امریکا کی مسلسل وعدہ خلافیوں کا مناسبت اور بر وقت جواب دے گا۔ان کا کہنا تھا کہ تہران ایٹمی معاہدے میں کسی بھی طرح کی ترمیم یا اصلاحات کو قبول نہیں کرے گا۔ ایران کی اعلی قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری نے یمن پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے وحشیانہ ہوائی حملوں میں یمنی بچوں اور خواتین کے قتل عام پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یمن میں فوری جنگ بندی، محاصرے کے خاتمے، انسان دوستانہ امداد کی ترسیل اور یمنی گروہوں کے درمیان مذاکرات کے تعلق سے ایران اور عمان کا موقف ایک جیسا ہے۔انہوں نے علاقے میں سیاسی اور سیکورٹی سطح پر شگاف اور اختلاف پیدا کرنے اور خطے کو دو بلاکوں میں تقسیم کرنے کے سلسلے میں بعض ملکوں کی مسلسل کوششوں کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ خلیج فارس اور علاقے کی سیکورٹی چندجانبہ تعاون اور کشیدگی پیدا نہ کرنےوالی پالیسی سے ہی ممکن ہوگی۔
عمان کے وزیرخارجہ یوسف بن علوی نے بھی اس ملاقات میں سیاسی عزائم کو دوسروں پر مسلط کرنے کے لئے فوجی طاقت کے استعمال کو ناقابل قبول اقدام قراردیا اور کہاکہ علاقے میں حالیہ برسوں کے واقعات سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ جنگ و خونریزی کے بجائے بات چیت اور افہام و تفہیم کا ہی راستہ اپنایا جانا چاہئے۔