ایرانی اہداف کو نشانہ بنانےکی دھمکی اور ایران کا صبر و ضبط + مقالہ
اسرائیل کے وزیر خارجہ اویگڈر لیبرمین دھمکی آمیز بیان دینے کے لئے بدنام ہیں اور ان کے بیان تحریک آمیز ہوتے ہیں تاہم انہوں نے پیر کو جو بیان بیت المقدس میں ایک پریس کانفرنس میں دیا ہے کہ وہ شام کے باہر ایرانی اہداف کو نشانہ بنائیں گے، اسے سنجیدگی سے لینا چاہئے۔
لیبرمین نے کہا کہ ہم اپنے آپ کو صرف شام کی سرزمین تک محدود نہیں رکھیں گے، یہ بات بالکل واضح رہنی چاہئے، ہم ایرانی خطرے سے نمٹنیں گے، پھر وہ چاہے جہاں بھی ہو۔
یہ بات تو صحیح ہے کہ لیبرمین نے ان اہداف کو معین نہیں کیا ہے جنہیں وہ نشانہ بنانے کی بات کر رہے ہیں تاہم ہم یہ سمجھتے ہیں کہ عراق ان میں سر فہرست ہے جبکہ دیگر ممالک خاص طور پر تیسری دنیا کے ممالک میں ایرانی سفارتخانوں پر دہشت گردانہ حملے بھی اسرائیل کے منصوبوں کا حصہ ہو سکتے ہیں۔
یہ دھمکی بتاتی ہے کہ اس وقت اسرائیل کی سیاسی اور فوجی قیادت میں کس کاری ضرب کی ناامیدی اور بوکھلاہت پھیلی ہوئی ہے کیوںکہ شام میں ایرانی کہے جانے والے ٹھکانوں پر میزائیل حملے اور بمباری سے اسرائیل، ایران کو شام سے باہر نکالنے میں کامیاب نہیں ہو سکا بلکہ اس کا نتیجہ برعکس نکلا۔
ایران اور شام کی قیادت نے اسرائیلی حملوں کو تحمل کیا اور صبر کا مظاہرہ کیا تاکہ اسرائیل کو شام کی سرزمین پوری طرح آزاد کرانے کے لئے جاری جنگ کے پورا ہونے سے نئی جنگ شروع کرنے کا موقع نہ مل جائے۔ اس وقت ادلب اور دریائے فرات کے مشرقی علاقے اب بھی دہشت گردوں کے قبضے سے آزاد کرائے جانے ہیں۔
لیبرمین چاہتے ہیں کہ ایرانی کوئی ایسی فوجی کاروائی کردے جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے میں مددگار بن جائے۔ ٹرمپ کا منصوبہ بھی در حقیقت اسرائیلی منصوبہ ہی ہے کہ کسی طرح ایران پر حملہ ہو جائے اور ایران پر اقتصادی پابندیاں مزید سخت ہو جائیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی وزیر خارجہ عراق، جنوبی لبنان یا خود شام میں ایرانی اہداف کو نشانہ بنانے کی بات کرتے ہیں۔
اسرائیل نے جو پیغام دیا ہے وہ اپنے مقصد یعنی ایرانی قیادت تک یقینی طور پر پہنچ گیا ہوگا لیکن اس کا کوئي اثر نہیں ہوگا۔ ایران میں تین ممالک کا سربراہی اجلاس منعقد ہونے والا ہے جس میں علاقے کے نئے نقشے کے بارے میں گفتگو ہوگی کیونکہ اس علاقے میں امریکا کا تسلط بڑی تیزی سے محدود ہوتا جا رہا ہے۔
یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اسرائیل خود کو اس حالت میں نہیں دیکھ رہا ہے کہ وہ ایران سے جنگ کی جرات کرے۔ اسرائیل تو کسی طرح اس کوشش میں ہے کہ حماس تنظیم سے اس کی کوئی جنگ نہ ہو کیونکہ حالیہ دنوں میں حماس نے اسرائیلی حملوں کے جواب میں 100 سے زائد میزائل فائر کردیئے اور صیہونیوں کو پورے پورے علاقے خالی کرنے پڑے۔ اس حالت میں اسرائیل کسی بڑے حملے کو کیسے برداشت کر پائے گا۔
یہ بھی یقینی ہے کہ اسرائیل کو اپنے گلے میں پھندا تنگ ہوتا نظر آ رہا ہے کیونکہ علاقے کے حالات جس رخ پر جا رہے ہیں اس میں اسرائیل کے لئے اپنا وجود بچانا مشکل نظر آ رہا ہے۔