تہران: سہ فریقی سربراہی اجلاس، شام میں دہشت گردی کے مکمل خاتمے پر زور
تہران میں شام کے بارے میں ایران روس اور ترکی کے سہ فریقی سربراہی اجلاس میں شام کے بحران کو سیاسی طریقے سے حل، دہشت گردی کے مکمل خاتمے اور پناہ گزینوں کی واپسی کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
تہران میں سہ فریقی سربراہی اجلاس سے ایران روس اور ترکی کے صدورنے خطاب کیا- اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے اس اہم اجلاس میں اپنے خطاب میں کہا کہ شامی پناہ گزینوں کی وطن واپسی اور شام میں تعمیر نو کا عمل بین الاقوامی برادری کے ایجنڈے میں شامل ہونا چاہئے اور ایران اس میدان میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہے-
صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے ایک بار پھر کہا کہ شام کا بحران فوجی طریقے سے حل نہیں کیا جا سکتا- ان کا کہنا تھا کہ شام کے صوبے ادلب میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی شام میں امن و امان کی بحالی کے لئے ناگزیر ہے البتہ اس کارروائی میں عام شہریوں کی جان کی حفاظت کے لئے تدابیر اپنانا ہو گی-
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کوئی منصوبہ اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک دہشت گردی کے پنپنے اور پروان چڑھنے کے اسباب و علل اور اس کی جڑوں کا پتہ لگا کر ان کا خاتمہ نہ کیا جائے-
صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے صراحت کے ساتھ کہا کہ غاصبانہ قبضے، دہشت گردی، جارحیت، غیر ملکی مداخلت اور نسلی امتیاز کے بانی و ذمہ دار امریکا اور اسرائیل اور دہشت گردی کے حامی بعض دیگر ممالک جھوٹے الزامات اور ہنگامہ آرائی کے ذریعے اپنے اقدامات پر پردہ نہیں ڈال سکیں گے-
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے کہا کہ شام کے مستقبل کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ شام کے عوام کی مرضی سے ہی ہو گا- انہوں نے کہا کہ شام سے متعلق آستانہ امن مذاکرات کے عمل کے دائرہ کار میں تہران اجلاس شامی عوام کی خواہش کی بنیاد پر منعقد ہوا ہے اور یہ اجلاس آئندہ کے بارے میں مشترکہ اقدامات کا جائزہ لینے کے لئے بہترین موقع ہے-
ان کا کہنا تھا کہ شام میں ایران کی فوجی مشاورت شامی حکومت کی دعوت پر انجام پا رہی ہے اور ایران کے فوجی مبصرین کی موجودگی اس وقت تک باقی رہے گی جب تک شام کی حکومت چاہے گی-
تہران اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے بھی شام میں جلد سے جلد تعمیر نو کا عمل شروع کئے جانے پر زور دیا-
روسی صدر نے کہا کہ اس وقت شام کا نوے فیصد سے زائد علاقہ اور ایک سو اکتالیس سے زیادہ شہر دہشت گردوں کے قبضے سے آزاد ہو چکے ہیں- صدر پوتن کا کہنا تھا کہ باقی بچے دہشت گرد گروہ ادلب میں جمع ہو گئے ہیں اور یہ دہشت گرد گروہ فائربندی کو درہم برہم کرنا چاہتے ہیں اور کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کر کے اشتعال انگیز اقدام انجام دے رہے ہیں-
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے اجلاسوں نے شام کے سیاسی حل کے میدان میں اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں اور ایسے مناسب حالات پیدا کئے ہیں کہ اب شام کے عوام اپنی مرضی سے اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کر سکیں گے-
انہوں نے شامی پناہ گزینوں کی واپسی کو ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایران اور ترکی نے بھی ہمارے اس موقف کی حمایت کی ہے، ہم ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں- روسی صدر نے کہا کہ ایران، روس اور ترکی کی کوششوں سے شام میں اہم پیشرفت ہوئی ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ جب تک شام کا معاملہ پوری طرح سے حل نہیں ہو جاتا اس طرح کے اجلاس کا سلسلہ جاری رہے گا-
انہوں نے ادلب کی صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ شامی حکومت کا حق ہے کہ پورے ملک پر اس کا کنٹرول ہو- ان کا کہنا تھا کہ ادلب میں موجود دہشت گردوں کے ڈرون حملوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا البتہ وہاں عام شہریوں کی آبادی کے پیش نظر تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھنا ہو گا-
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے بھی تہران اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تینوں ممالک شام کی ارضی سالمیت کے تحفظ اور شام کے بحران کو سیاسی طریقے سے حل کرنے پر زور دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انقرہ کی حکومت اپنے ایرانی اور روسی دوستوں کی تشویش کو درک کرتی ہے-
ترک صدر نے شام میں امریکی کردار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امریکا فرات کے مشرقی ساحلوں پر ایک دہشت گرد گروہ کی مدد کر رہا ہے اور امریکی مدد کی وجہ سے یہ دہشت گرد گروہ طاقتور ہو رہا ہے-
تہران اجلاس کے بعد تینوں ملکوں کے سربراہوں کی جانب سے ایک مشترکہ بیان بھی جاری کیا گیا جس میں شام کی آزادی وخودمختاری، ارضی سالمیت اور اقتدار اعلی کے تحفط پر زور دیا گیا-
بارہ شقوں پر مشتمل اس بیان میں ایران، روس اور ترکی کے صدور نے داعش، جبہہ النصرہ اور القاعدہ یا داعش اور القاعدہ سے وابستہ ان سبھی گروہوں کی نابودی تک کہ جنھیں اقوام متحدہ نے دہشت گرد قرار دے رکھا ہے اپنا باہمی تعاون جاری رکھنے کے عزم کا اعلان کیا ہے-
مشترکہ بیان میں بھی زور دیا گیا ہے کہ شام کا بحران صرف سیاسی طریقے سے ہی حل ہو سکتا ہے-