ایران سے جنگ کی سازش، کہاں ہونے والی ہے یہ جنگ؟ + مقالہ (آخری حصہ)
گزشتہ سے پیوستہ
اسرائیل نے 1967 میں تمام عرب ممالک کو صرف چھ دنوں میں شکست دینے میں کامیابی حاصل کی جس کے بعد اس فوج کے فاتح ہونے کا خوب اعلان ہوا اور عرب، بارہا اسرائیل کے ساتھ امن سمجھوتے پر مجبور ہوئے تاہم پھر لبنان میں حزب اللہ نامی تنظیم کی تشکیل ہوئی اور اس نے بغیر سمجھوتے اور بغیر معاہدے کے، اسرائیل کو جنوبی لبنان سے واپس جانے پر مجبور کر دیا ۔
2006 میں اسرائیل کو یہ امید تھی کہ وہ لبنان پر حملہ کرکے جنوبی لبنان چھوڑنے کی بے عزتی کا انتقام لے لے گا تاہم 33 دنوں تک چلنے والی اس جنگ میں اسے توہین آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اس کی سمجھ میں آ گیا کہ عربوں کے خلاف چھ دنوں میں کامیابی حاصل کرنے کا زمانہ گزر چکا ہے اور اس بار ایک تنظیم نے، اسے اتنے سارے پیشرفتہ ہتھیاروں اور وسائل کے باوجود شکست دے دی ۔ یہی سبب ہے کہ اسرائیلی رہنماؤں نے دوسری پالیسی اختیار کی اور براہ راست جنگ کے بجائے اب، اسرائیل کے پڑوس میں واقع تمام ممالک میں بد امنی اور جنگ داخلی میں دھکیلا جا رہا ہے تاکہ اسرائیل کی سیکورٹی یقینی بنائی جا سکے ۔
لیبرمین کے مطابق پورے علاقے میں مسلمانوں کے درمیان جو بھی جنگ رونما ہوئی ہے اس کا براہ راست فائدہ اسرائیل کو ملا ہے اور اسرائیل کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ مسلمان ہمیشہ ایک دوسرے سے بر سر پیکار رہیں اور کسی بھی فریق کو دوسرے فریق پر کامیابی نہ ملے ۔
اس بیان کے مد نظر امریکا کے موجودہ صدر ٹرمپ اور سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کی یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ داعش اور القاعدہ، امریکا کی پیداوار ہیں ۔ در اصل ان دہشت گرد تنظیموں نے جب تک امریکا اور اسرائیل کے اہداف پورے کئے، اچھے دہشت گردوں کی فہرست میں شامل رہے تاہم جب امریکا اور اسرائیل کو یہ محسوس ہوا کہ اب ان کا کوئی کام نہیں رہ گیا تو انہوں نے ان دہشت گرد تنظیموں سے اپنا دامن چھاڑ لیا اور 65 ممالک کے ساتھ اتحاد کرکے امریکا انہیں تنظیموں سے جنگ کے لئے نکل پڑا تاہم دہشت گردوں کے خلاف کچھ بھی نہیں کیا اور پھر اچانک ہی دنیا نے دیکھا کہ بغداد اور دمشق، دہشت گرد گروہ داعش کے محاصرے میں آ گئے، عراقی اور شامی رہنماؤں نے درخواستیں کیں لیکن کسی نے ان کی مدد نہیں کی پھر جب ایران اور روس نیز ان کے اتحادی میدان جنگ میں کودے تو امریکا کی پیداوار ان تنظیموں نے پسپائی اختیار کرنا شروع کر دی اور وہ سرنگوں ہونے لگیں تب جاکر امریکا نے جلدی جلدی ایک اتحاد بناکر جنگ کی مہم شروع کر دی تاہم یہ تو سب کو ہی معلوم ہے کہ داعش کی سرنگونی کے ساتھ ہی امریکا کو اس علاقے میں تاریخ کی سب سے بڑی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے ۔
امریکا اور اسرائیل نے ایک اور منصوبہ بنایا اور عراق کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی سازش کی ۔ ایک شیعہ، ایک سنی اور ایک کرد ملک ۔ امریکا اور اسرائیل کو امید تھی کہ ایران کے پڑوس میں کردستان بنا کر وہ ایران کی سرحد تک پہنچ جائیں گے تاہم اس سازش کو ایران کے مشہور فوجی جنرل قاسم سلیمانی نے مٹی میں ملا دیا ۔ سپاہ پاسداران یا آئی آر جی سی کی قدس بریگیڈ کے کمانڈر جنرل سلیمانی نے عراقی کردستان پہنچنے کے 24 گھنٹے کے اندر، امریکا اور اسرائیل کی اس بڑی سازش کو ناکام بنا دیا ۔
اب امریکا اور اسرائیل ڈیل آف دی سینچری لے کر آئے ہیں لیکن سب کو معلوم ہے کہ ایران، اس منصوبے کو بھی عراق کی تقسیم کے منصوبے کی طرح بلکہ اس سے زیادہ بری طرح ناکام بنا دے گا۔ اسی لئے اسرائیل نے ایک متبادل منصوبہ بھی تیار کر رکھا ہے اور وہ ہے ایران کو جنگ میں پھنسانا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیل، ایران کی سرحدوں پر اس سے جنگ نہیں کر سکتا اور اسے یہ بھی معلوم ہے کہ وہ شام میں بھی ایران اور اس کے اتحادیوں سے جنگ نہیں کر سکتا اسی لئے وہ خود ایران میں جنگ کا خواہاں ہے ۔ اس کے لئے سب سے پہلے اس نے عربوں کو ایران کے خلاف جنگ کے میدان میں دھکیلنے کی کوشش کی ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو جنگ کا میدان بنانے کا فیصلہ کیا گیا لیکن عربوں نے ایران کے خلاف وسیع جنگ سے انکار کر دیا ہے اور انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اگر ایران کے خلاف جنگ ہوگی تو پھر امریکا کو اس میں عراق کی طرح براہ راست شامل ہونا پڑے گا جبکہ مصر اور اردن جیسے عرب ممالک نے اس طرح کی جنگ سے دور رہنے میں ہی عافیت سمجھا۔
ان حالات میں اسرائیلی اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جیسے بھی ہو خود امریکا کو جنگ میں دھکیل دیں اور خود پیچھے کھڑے ہوکر تالی بجائیں ۔ ایران کی فوج، سپاہ پاسداران کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے سے اس طرح کی جنگ کا ماحول بن سکتا ہے کیونکہ اس حالت میں علاقے میں موجود امریکی فوجیوں اور سپاہ پاسداران میں کسی بھی طرح کا رابطہ اور ہماہنگی نہیں ہو پائے گی اور جب امریکی، خلیج فارس میں رفت و آمد کریں گے تو وہاں تعینات سپاہ پاسداران سے کوئی ہماہنگی نہیں کریں گے جس سے تصادم کے امکانات بڑھ جائیں گے ۔
بشکریہ
اسپوتنک (مقالہ نگار کے ذاتی خیالات ہیں)