یورپ ایٹمی معاہدے پر عمل نہ ہونے کی ذمہ داری قبول کرے، ایرانی مندوب
اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل نمائندے نے کہا ہے کہ ایٹمی معاہدے کے حوالے سے یورپی ملکوں کے وعدوں کا دکھائی دینے والا نتیجہ سامنے نہیں آسکا ہے۔
ایٹمی معاہدے سے متعلق سلامتی کونسل کی قرار داد بائیس اکتیس پر عملدرآمد کی صورتحال کا جائزہ لینے کی غرض سے ہونے والے سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایران کے مستقل مندوب مجید تخت روانچی نے واضح الفاظ میں کہا کہ ایٹمی معاہدے پر عمل نہ ہونے کی تمام تر ذمہ داری یورپی ملکوں کو قبول کرنا ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ ایٹمی توانائی کے عالمی اداے آئی اے ای اے نے اپنی پندرہ پے در پے رپورٹوں میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایٹمی معاہدے کے تحت اپنے تمام وعدوں پر پوری طرح سے عمل کر رہا ہے۔
اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب نے کہا کہ ایٹمی معاہدے میں دیگر فریقوں کو بھی اپنے وعدوں پر عملدرآمد کا پابند بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی اور پابندیوں کے دوبارہ آغاز نے، ایٹمی معاہدے سے ایران کے مفادات کی تکمیل کا امکان ختم کر دیا ہے۔
مجید تخت روانچی نے کہا کہ امریکہ بڑی بے شرمی کے ساتھ سب کو دھمکیاں دے رہا ہے کہ اگر انہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد بائیس اکتیس پر عمل کیا تو ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل کے ایک رکن ملک کی حیثیت سے امریکہ کا غیر ذمہ دارانہ رویہ قرار داد بائیس اکتیس پر کھلا حملہ ہے اور اس کے نتیجے میں سلامتی کونسل کی رہی سہی ساکھ بھی برباد ہورہی ہے۔
اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل نمائندے نے واضح کیا کہ ایران اسٹریٹیجک صبر کی پالیسی کے تحت ایٹمی معاہدے پر عمل کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود تہران کو امریکہ کی اقتصادی جنگ اور زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کی صورت میں بھاری تاوان ادا کرنا پڑ رہا ہے۔
مجید تخت روانچی نے کہا کہ عالمی قوانین اور ضابطوں کے تحت روائتی بیلسٹک میزائل پروگرام ذاتی حق ہے اور سلامتی کونسل کی قرار داد بائیس اکتیس میں اس حق کو محدود یا اس سے منع نہیں کیا گیا۔ انہوں نے ایک بار پھر تہران کے اس ٹھوس اور اصولی موقف کا اعادہ کیا کہ ملک کی سلامتی اور دفاعی طاقت کے معاملے پر کسی سے مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔
قابل ذکر ہے کہ ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکل جانے کے بعد ایران نے اسٹریٹیجک صبر اور نیک نیتی کا مظاہرہ کیا اور اس معاہدے کو باقی رکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ ایٹمی معاہدہ، چند جانبہ معاہدہ ہے اور اسے یک طرفہ طور پر باقی نہیں رکھا جاسکتا لہذا اس معاہدے کو باقی رکھنے کے لیے یورپ نیز معاہدے کے دیگر فریقوں کو بھی عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔