طاقتور ایران سے برطانیہ کے ٹکراو کے نتائج
ایران کے خلاف ان دنوں دشمنی کی تلورا لہرانے والے مغربی ممالک خاص طور پر امریکا سے سب سے بڑی غلطی یہ ہو رہی ہے کہ وہ ایران اور اس کے اتحادیوں کی طاقت کا صحیح اندازہ نہیں کر پا رہے ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ بحران بڑھتا جا رہا ہے جس کی ایک مثال ٹینکرز کی ضبطی کا معاملہ ہے۔
جب رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایک ہفتے پہلے برطانیہ کو خبردار کیا تھا کہ برطانیہ نے آبنائے جبل الطارق میں جس ایرانی آئیل ٹینکر کو پکڑا ہے اگر اسے آزاد نہیں کیا تو جوابی کاروائی کی جائے گی تو برطانوی حکومت حکومت محسوس ہوا کہ شاید یہ کھوکھلی دھمکی ہے، اس پر کوئی عملی اقدام نہیں ہوگا۔ تاہم اب دیکھئے کہ ایران کی سپاہ پاسدارن نے اس دھمکی پر لفظ بہ لفظ عمل کرتے ہوئے آبنائے ہرمز میں برطانیہ کا تیل ٹینکر پکڑ لیا ۔ فورس کے ترجمان نے کہا کہ آئیل ٹینکر نے سمندری قوانین کی خلاف ورزی کی، ایک ایرانی کشتی سے ٹکرایا اور اس نے پانی کو آلودہ کیا ۔
برطانیہ نے جب ایران کا گریس-1 سپر آئیل ٹینکر پکڑا تو اس لئے نہیں پکڑا کہ اس نے عالمی سمندری قوانین کی خلاف ورزی کی تھی بلکہ صرف واشنگٹن کے اشارے پر اور خاص طور پر صدر ٹرمپ کے کہنے پر یہ قدم اٹھایا۔ جب اس کے جواب میں سپاہ پاسدارن کی کشتیوں نے خلیج فارس میں دو برطانوی جہاز کو پکڑ لیا (ان میں سے ایک کو بعد میں آزاد کر دیا) تو یہ قدم اس لئے اٹھایا کہ برطانوی حکومت پر ایران کے تیل ٹینکر کو آزاد کرنے کے لئے دباؤ بنے ۔
ایرانی انتظامیہ مغربی ممالک کو صاف طور پر یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ وہ جو کہتا ہے اسے کرتا بھی ہے، اگر کسی نے اس کے خلاف مخاصمانہ اقدام کئے تو وہ جوابی اقدام کرنے میں آخری حد تک جائے گا، چاہے معاملہ جنگ کے دہانے تک کیوں نہ پہنچ جائے ۔ یعنی یہ کہ مغربی ممالک کی جانب سے عائد پابندیوں کے سامنے ہرگز سر تسلیم خم نہیں کرے گا۔
ایران میں وہ حکومت بر سر اقتدار ہے جو مغربی ممالک کو اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دے گی کہ پابندی عائد کرکے اس کے عوام کو بھوکوں مرنے دیں، اسے نہ تو امریکی طیارہ بردار بیڑوں کا خوف ہے اور نہ برطانیہ کا کوئی خوف۔ یہ وہ حکومت ہے جو مذاکرات کی میز پر بیٹھے گی تو اپنی شرطوں کے مطابق بیٹھے گی ۔ اس حکومت نے فضائی سرحدوں کی خلاف ورزی کرنے والے امریکی ڈرون طیاروں کو سرنگوں کر دیا اور اپنے اعلان کے مطابق یورینیم کی افزودگی کی سطح اور اس کی مقدار بھی بڑھا دی ہے۔ ابھی آگے بہت کچھ ہونے والا ہے ۔
خلیج فارس اور آبنائے ہرمز میں سمندری رفت و آمد پوری طرح محفوظ تھا، اس میں کئی عشروں سے کوئی مسائل نہیں پیدا ہوئے۔ مسائل کا آغاز تب ہوا جب امریکا ایٹمی معاہدے سے باہر نکلا اور اس نے ایران کی تیل برآمد پر پابندی عائد کر دی ۔
ایران طاقتور ہے اس لئے نہیں کہ اس پاس بیلسٹک میزائلوں کے بڑے ذخائر ہیں، تیز رفتار جنگی کشتیاں ہیں جو ریڈار کے اسکرین پر نظر نہیں آتی بلکہ اس لئے کہ ایرانی انتظامیہ کے پاس مضبوط قوت ارادی ہے اور گستاخی کرنے والی کسی بھی طاقت کے خلاف جوابی کاروائی کا فیصلہ کرنے کی طاقت ہے ۔
مجھ سے بی بی سی ورلڈ کی اینکر نے پوچھا کہ اگر آپ وزیر اعظم ٹریزا مے کے مشاور ہوتے تو انہیں کی مشورہ دیتے؟ تو میں نے جواب دیا کہ میں مشیر نہيں ہوں اور کبھی نہیں بنوں گا، میں تو بہت انہیں نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ جس ایرانی تیل ٹینکر کو برطانیہ نے پکڑا ہے اسے فورا چھوڑ دیں اور دوسری نصیحت یہ کہ صدر ٹرمپ اور ان کی خطرناک پالیسییوں سے خود کو پوری طرح سے دور کر لیں ورنہ برطانیہ مشرق وسطی اور خلیج فارس میں مسائل کے بھنور میں پھنس جائے گا ۔
آخر میں یہ بات بھی بتا دوں کہ ایران کا رد عمل صرف ایران تک محدود نہیں ہے بلکہ ایران کے اتحادی شام، عراق، لبنان، یمن اور غزہ پٹی میں بھی موجود ہیں ۔ ٹرمپ کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ وہ زمانہ گزر چکا ہے کہ جب امریکا کی جنگ میں شامل ہونے کے لئے ملکوں میں مقابلہ آرائی ہونے لگتی تھی ۔ یہ نیا دور ہے جس میں مغربی ممالک کی غنڈہ گردی برداشت نہیں کی جائے گی ۔
بشکریہ
رای الیوم
عبد الباری عطوان