ایران، روس اور چین کی مشترکہ فوجی مشقیں، کیا نیا محاذ تیار ہو رہا ہے؟(پہلا حصہ)
بحر ہند اور بحیرہ عمان میں ایک ایسی فوجی مشقیں منعقد ہوئیں جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔
ان فوجی مشقوں میں ایران، چین اور روس کے جنگی بیڑے اور بحریہ کے اہلکار شامل ہوئے۔ ان فوجی مشقوں کا سلوگن ہے کہ علاقے میں عالمی تجارت کو محفوظ بنانا اور امن قائم کرنا۔ اس علاقے سے روزانہ 18 ملین بیرل تیل گزرتا ہے۔
شاید ابھی یہ کہنا جلدی ہو کہ یہ فوجی مشقیں، ایران، چین اور روس کا نیا اتحاد ہے لیکن یہ تو ایک حقیقت ہے کہ امریکا اور مغربی ممالک کے لئے ان فوجی مشقوں میں ایک عمیق پیغام پوشیدہ ہے جنہوں نے گزشتہ مہینے تیل کی آمد و رفت کی سیکورٹی کے دعوے کے ساتھ دو دو اتحاد بنانے کا اعلان کیا تھا اور اس میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک شامل ہیں۔
ایران کو سخت امریکی پابندیوں کا سامنا ہے اسی لئے ان فوجی مشقوں سے اسے سب سے زیادہ فائدہ حاصل ہوگا کیونکہ ان فوجی مشقوں کا ایک مطلب، امریکی پابندیوں کی دیوار منہدم کرنا بھی ہے۔ اس سے دنیا کو یہ پیغام جاتا ہے کہ ایران، امریکی دعوے کے برخلاف، تنہا نہیں ہے بلکہ اس کے پاس تو چین اور روس جیسی دو عظیم طاقتیں دوست کے طور پر موجود ہیں ۔
ویسے بھی اب وہ وقت گزر چکا ہے کہ جب امریکا تنہا ہی دنیا پر حکومت کرتا تھا اور ہر ملک کا راستہ معین کرتا تھا اور خلیج فارس اور آبنائے ہرمز پر تو اس کی پکڑ بھی اس طرح سے مضبوط نہيں رہ گئی ہے جیسے کبھی ہوا کرتی تھی۔
جاری...
بشکریہ
رای الیوم
عبد الباری عطوان
ایران، روس اور چین کی مشترکہ فوجی مشقیں، کیا نیا محاذ تیار ہو رہا ہے؟ (دوسرا حصہ)
یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ ایران نے چین اور روس کے ساتھ مل کر یہ فوجی مشقیں ایسے وقت میں منعقد کیں کہ جب چین نے لانگ مارچ-5 نامی لمبے فاصلے کے میزائل کا تجربہ کیا ہے اور روس نے بتایا ہے کہ اس کا سوپر سانک میزائل فوج کے حوالے کر دیا گیا ہے جو دنیا میں کسی بھی علاقے میں جا کر اپنے اہداف کو تباہ کر سکتا ہے۔
اگر مغربی ذرائع کا یہ اندازہ ہے کہ چین آئندہ دس برسوں میں سب سے بڑی اقتصادی طاقت بن جائے گا اور پانچ سال کے اندر روس کی مدد سے ایسا اقتصادی سسٹم نافذ کرے گا جس سے ڈالر کا تسلط ختم ہو ہی جائے گا، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ایران نے اپنے عرب حریفوں کے برخلاف، زیادہ طاقتور اور قابل اعتماد اتحادی کا انتخاب کیا ہے۔
مغربی یونیورسٹیز اور اسکولوں میں چینی زبان بڑھائی جانے لگی ہے اور ہمارے زیادہ تر مذہبی رہنما اور علماء فرشتے مذکر ہیں یا مونث اس بات پر گفتگو کر رہے ہیں، عرب ممالک تقریبا ہر چیز درآمد کر رہے ہیں حتی انڈرگارمنٹس بھی۔
دنیا میں بڑی تیزی سے تبدیلی رونما ہو رہی ہے جبکہ زیادہ تر عرب، ایک ہی ہدف تک پہنچنے میں مصروف ہیں اور وہ ہے ایک دوسرے کو تباہ کرنا، وہبھی امریکی احکامات سے، اور ہمیں نہیں لگتا کہ یہ حالات اگلے بیس برسوں تک بدلنے والے ہیں۔
ایران، طاقتور ممالک سے ہاتھ ملا رہا ہے اور دوستی کر رہا ہے کیونکہ اس کے پاس حکمت عملی اور پیشرفتہ فوجی وسائل ہے، اس کے ساتھ ہی ایران کی طاقت میں اضافہ بھی ہو رہا ہے لیکن اس کے ہمسایہ عرب ممالک، طاقتوروں سے دوستی تو کر رہے ہیں لیکن اس لئے تاکہ ان طاقتوروں کے کمزور چمچے بن سکیں اور اربوں ڈالر دے کر اپنی وفاداری ثابت کر سکیں۔ یہی سبب ہے کہ ایران ترقی کی راہ پر تیزی سے گامزن ہے اور عرب ممالک، بس دوسروں کو برا بھلا کہنے، گالیاں دینے اور اسی مقصد کے لئے آئی ٹی سیل بنا کر خوش ہو رہے ہیں۔
بشکریہ
رای الیوم
عبد الباری عطوان