سال کے آخری دن امریکہ کی ایک اور رسوائی
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی پانچویں کمیٹی نے ایٹمی معاہدے کے حوالے سے امریکی تجویز کو مسترد کرکے سال کے آخری دن ٹرمپ انتظامیہ پر ایک اور کاری ضرب لگائی ہے۔
ہمارے نمائندے کے مطابق امریکہ اقوام متحدہ کے دوہزار اکیس کے بجٹ میں ایران کے خلاف پابندیوں کے لیے خصوصی کمیٹی کی بحالی کی غرض سے دو شقوں کا اضافہ کرانا چاہتا تھا جس کی عالمی ادارے کے ایک سو بیالیس ارکان نے مخالفت کی اور واشنگٹن کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔امریکی مندوب کی دلیل یہ تھی کہ امریکہ ایٹمی معاہدے سے نکل چکا ہے اور واشنگٹن سمجھتا ہے کہ اب اس معاہدے کا عملی طور پر کوئی وجود نہیں لہذا ایران کے خلاف پابندیوں کے لیے قائم کی گئی کمیٹی کو اپنا کام دوبارہ شروع کردینا چاہیے۔ دس ملکوں نے امریکی مطالبے کی حمایت کی، ایک سو دس نے کھل کر مخالفت کی جبکہ بتیس ملکوں نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔
اس سے پہلے اقوام متحدہ میں ایران کے ڈپٹی چیف ڈیلیگیٹ اسحاق آل حبیب نے امریکہ کے اس اقدام کو سیاسی محرکات کا حامل قرار دیتے ہوئے واشنگٹن کی تجویز پر رائے شماری کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔انہوں نے جامع ایٹمی معاہدے کو ایران کے خلاف پیدا کیے جانے والے جعلی بحران کے حوالے سے کثیر الفریقی سفارت کاری کی کامیاب مثال قرار دیتے ہوئے یاد دہانی کرائی کہ سلامتی کونسل نے قراداد بائیس اکتیس متفقہ طور پر منظور کرکے ایران کے ساتھ ہونے والے جامع ایٹمی معاہدے کی توثیق کی تھی۔اقوام متحدہ میں ایران کے سفیر نے یہ بات زور دے کر کہی کہ اس قرار داد کی بنیاد پر ایران کے خلاف سلامتی کونسل کی جانب سے بنایا جانے والا پابندیوں کا پورا میکنیزم ختم ہوچکا ہے۔اسحاق آل حبیب نے امریکی اقدام کو ایٹمی معاہدے کو نابود کرنے کی کوشش قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے پہلے ٹریگر میکنیزم کو فعال بنانے کی امریکی کوشش کو بھی سلامتی کونسل کے تیرہ ارکان نے مسترد کردیا تھا اور یہ بات واضح کردی تھی کہ صرف ایٹمی معاہدے کے فعال ارکان ہی اس میکنیزم سے استفادے کا حق رکھتے ہیں۔انہوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ امریکی اقدام کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے ۔ اقوام متحدہ میں ایران کے سفیر نے کہا کہ جنرل اسمبلی اس بات کی مجاز ہرگز نہیں ہے کہ وہ اس کام کے لیے بجٹ مختص کرے جسے سلامتی کونسل اپنے واضح فیصلے کے ذریعے مسترد کر چکی ہے۔