کیلینڈر ؛ عشرہ فجر کا دوسرا دن
عشرہ فجر کا دوسرا دن تاریخ کے آئینے میں
دوفروری انیس سو اناسی کی تاریخ عشرہ فجر کا دوسرا دن تھا عشرہ فجر کے ایام ایران کے انقلابی عوام کے بہت ہی سخت اور دشوار ایام تھے - دوفروری انیس سو اناسی کو ایران کے عوام امام خمینی کے حکم پر سڑکوں پر موجود تھے اور ساتھ ہی امام خمینی سے ملاقات کرکے راہ میثاق کو جاری رکھنے کا عہد کررہے تھے - آج ہم دوفروری انیس اناسی کو رونما ہونے والے انقلابی واقعات پر نظر ڈالیں گے ۔
دارالحکومت تہران، جو امام خمینی کی وطن واپسی سے قبل تک پوری طرح میدان جنگ بنا ہوا تھا اب آپ کے آنے کے بعد جشن کا سماں پیش کررہا تھا اور لوگ سڑکوں اور گلی کوچوں کی صفائی کررہے تھے کیونکہ شاہی حکومت کےگماشتوں کے ذریعے توپ اور بندوق کی گولیوں سے بہت سے مکانات اور دوکانوں کو آگ لگ گئی تھی اور جگہ جگہ آتشزدگی کی وجہ سے راکھ اور جلے ہوئے سامان اکٹھا ہوگئے تھے- ایران کےدیگر شہروں میں بھی لوگ اسی کام میں مصروف تھے اور رضاکارانہ طور پر اپنے شہروں کی صفائی کررہے تھے - اسکول ، کالج اور یونیورسٹیاں بند ہوچکی تھیں- امام خمینی کی وطن واپسی اور بہشت زہرا میں لاکھوں انقلابیوں سے آپ کے خطاب کے بعد اب آپ نے عوام سے براہ راست رابطہ رکھنے کے لئے تہران کے وسط میں واقع مدرسہ علوی میں قیام کیا جہاں سیکورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کئے گئے تھے - دوفروری انیس سو اناسی کی صبح سے بڑی تعداد میں لوگ جوق در جوق بے خوف ہو کر مدرسہ علوی کی طرف جارہے تھے تا کہ اپنے فاتح قائد و رہبر سے عہد کریں-
قبرستان بہشت زہرا میں ایرانی عوام کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر سے خطاب کرتے ہوئے حضرت امام خمینی (رح) نے شاہ کی ظالم و جابر حکومت کی سب سے بڑی پشت پناہ امریکی حکومت کے خلاف اپنے کھلے موقف کا اظہار کیا تھا۔
مدرسہ علوی کا صحن لوگوں کی آمد و رفت سے چھلک رہا تھا اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ سے ملنے کے لئے لوگوں کی آمد کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا ۔امام خمینی نے مدرسہ علوی میں ہی لوگوں سے اپنے ایک خطاب کے دوران ایک بار پھر فرمایا کہ شاہی حکومت کا خاتمہ ہونا ہی ہے اور اب عوام ہی اپنی سیاسی تقدیر کا فیصلہ خود کریں گے -امام خمینی نے فرمایا کہ شاہی حکومت پہلے دن سے ہی خلاف عقل تھی ۔ ہر قوم کو اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرنا چاہئے -امام خمینی نے فوج کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اب عوام کی صفوں میں شامل ہوجائیے اور امریکی فوجی مبصرین کے ذلت آمیز تسلط سے چھٹکارہ حاصل کرلیجئے-
پہلوی حکومت کے آخری وزیراعظم شاہ پور بختیار نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں امام خمینی کے ذریعے تشکیل دی گئی عبوری حکومت کے بارے میں کہا کہ اگر وہ اس طرح کی حکومت قم میں قائم کرنا چاہیں تو ہم اس کی اجازت دے دیں گے اور یہ بہتر ہوگا کیونکہ ہمارے پاس بھی ایک چھوٹا وٹیکین ہوجائے گا ۔ لیکن میں پوری سنجیدگی سے یہ کہنا چاہتاہوں کہ آیت اللہ خمینی کو ایک حقیقی حکومت کی تشکیل کی اجازت نہیں دے سکتا - بختیار کے بیانات کی مخالفت اور امام خمینی کی حمایت میں ایران کے مختلف شہروں میں مظاہرے اور جھڑپیں شروع ہوگئیں اور شاہی حکومت کے کارندوں نے متعدد انقلابی شہریوں کو شہید کردیا ۔ شاہ پوربختیار نے کہا کہ وہ ان سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ ایسو سی ایٹڈ پریس نے فوج کے اعلی افسران کے حوالے سے لکھا کہ فوجی افسران کا کہنا ہے کہ اگر آیت اللہ خمینی نے آئین کے خلاف کوئی اقدام کیا تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
رویٹرز نیوزایجنسی نے بھی دوفروری انیس سو اناسی کو اسرائیلی حکام کے حوالے سے خبردی کہ ہمیں آیت اللہ خمینی کی ایران واپسی پر سخت تشویش ہے اور ممکن ہے کہ آیت اللہ خمینی کی ایران واپسی سے شدت پسندانہ اقدامات انجام دیئے جائیں اور ان سے مشرق وسطی میں امن کا عمل بھی متاثر ہوسکتا ہے ۔
ریڈیو ماسکو نے بھی دوفروری انیس سو اناسی کے واقعات کے بارے میں خبردی کہ امریکا میں مقیم ایرانی طلبا نے ایران میں امریکا کی مداخلت کے خلاف وائٹ ہاؤس کے باہر مظاہر کیا ہے ۔ اس دوران شاہی حکومت کے کارندوں اور عوام کے درمیان جھڑپ میں شاہ کی خفیہ تنظیم ساواک کا ایک سینئر افسر کرنل معتمدی ہلاک ہوگیا -ادھر قومی محاذ کی مرکزی کونسل کے رکن ڈاکٹرسنجابی نے انقلاب اور امام خمینی سے وفاداری کا اعلان کرتے ہوئے وزارت عظمی کے عہدے سے شاپور بختیار کے استعفے کا مطالبہ کردیا ۔امریکا کی جارجا ٹاؤن یونیورسٹی کے پروفیسر جان اسپوزیٹو کہتے ہیں کہ اسلامی انقلاب نے اپنے نعروں کی کشش، روش، اہداف ، نتائج ، اپنی دینی اقدار، تاریخی خصوصیات، اور علاقائی نیز بین الاقوامی حالات کے پیش نظر ، اسلامی دنیا میں اہم اثرات مرتب کئے ۔
بی بی سی ٹی وی نے اعلان کیا کہ انیس سو اناسی میں ایران میں جو انقلاب آیا وہ ، صرف ایرانیوں کے لئے ہی نہیں بلکہ تمام ادیان کے ماننے والوں کے لئے ایک اہم موڑ ثابت ہوا اور اس کے نتیجے میں دنیا میں کروڑوں افراد، مذہبی بنیادوں سے وابستگی کی طرف واپس آئے۔ پوری دنیا میں عیسائیوں ، یہودیوں اور ہندوں نے بھی مذہب سے وابستگی کا رخ کیا ، حتی ترکی میں بھی جس نے ستر سال قبل مذہب سے جنگ کی تھی، اسلامی اصولوں کی طرف واپسی میں تیزی آئی ۔