ایران کے اقدامات جوابی ہیں،معاہدہ مؤثر ہونے کے لئے امریکی و یورپی اقدامات چاہتا ہے: جواد ظریف
وزیر خارجہ ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے یورپی ٹرائیکا کے بیان کے جواب میں کہا ہے کہ ایران کے اقدامات جوابی ہیں ۔ انھوں نے اسی کے ساتھ تین یورپی ملکوں ، برطانیہ، فرانس سے جرمنی سے مطالبہ کیا ہے کہ ایران پر دباؤ ڈالنے کوشش کےبجائے اپنے وعدوں پر عمل کریں اور امریکا کی غیر قانونی پابندیاں ختم کرائیں ۔
ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اپنے ٹوئٹر پیج پر لکھا ہے کہ ذمہ داریوں کا بوجھ ایران پر ڈالنے کے بجائے تینوں یورپی ملکوں اور یورپی یونین کو چاہئے کہ اپنے وعدوں پر عمل کریں اور انہیں اس بات کے درپے ہونا چاہئے کہ ایران کے خلاف امریکہ کی ٹرمپ حکومت کی میراث کا خاتمہ کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ایران کی جانب سے عمل میں لائے جانے والے اقدامات امریکہ اور یورپی ملکوں کی خلاف ورزیوں کا جواب ہیں اور ایران کے جوابی اقدامات سے اگر خوف و ہراس ہے تو اس کی وجہ اور سبب کو دور کریں۔
ڈاکٹر محمد جواد ظریف نے کہا کہ ایران تو صرف اقدام کے جواب میں اقدام کی راہ اختیار کئے ہوئے ہے۔
تینوں یورپی ملکوں برطاانیہ فرانس اور جرمنی کے وزرائے خارجہ نے جمعرات کی شب اپنے ایک بیان میں ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں اپنی وعدہ خلافیوں کی طرف کوئی اشارہ کئے بغیر ایران سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مزید کسی بھی قسم کے اقدامات خاص طور سے ایڈیشنل پروٹوکول پر عمل درآمد روکنے اور ایران میں آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کے عمل کو محدود کرنے سے گریز کرے۔
امریکہ کے نئے صدر جوبائیڈن نے، جو صدارتی انتخابات سے قبل ایٹمی معاہدے میں واپس لوٹنے اور ایران کے خلاف غیر قانونی پابندیوں کو ختم کرنے کی بات کہہ چکے تھے، وہائٹ ہاؤس میں پہنچتے ہی اپنے اس وعدے کو ایران کی جانب سے تمام ایٹمی وعدوں پر عمل کئے جانے سے مشروط کر دیا۔
امریکہ کے سابق صدر ٹرمپ نے آٹھ مئی دو ہزار اٹھارہ کو یکطرفہ اور غیر قانونی طور پر بین الاقوامی ایٹمی معاہدے سے علیحدگی اور ایران کے خلاف پابندیوں کی بحالی کا اعلان کر دیا۔ امریکہ کے اس اقدام کے بعد ایران نے یورپی ملکوں کی جانب سے ایٹمی معاہدے پر مکمل طور پر عمل کئے جانے کی شرط پر اس بین الاقوامی معاہدے سے متعلق اپنے تمام وعدوں پر عمل جاری رکھنے اور اس معاہدے کو بچانے کی بھرپور کوشش کی مگر بین الاقوامی ایٹمی معاہدے کے تحفظ کے لئے یورپی ملکوں نے بھی اپنے وعدوں پر کوئی عمل نہیں کیا۔
ایسی صورت حال میں ایران کی قومی سلامتی کی اعلی کونسل نے آٹھ مئی دو ہزار انیس یعنی بین الاقوامی ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی کا پورا ایک سال مکمل ہونے پر اس بین الاقوامی معاہدے کی شق نمبر چھبیس اور چھتیس کی بنیاد پر اپنے وعدوں سے پسپائی اختیار کرنا شروع کر دیا تاکہ امریکی اور یورپی خلاف ورزیوں کا جواب دے کر توازن برقرار کیا جا سکے۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے تیئس فروری کو تہران کے خلاف پابندیوں کے خاتمے اور ایرانی قوم کے حقوق کے تحفظ کے لئے قانون کے دائرے میں ایٹمی معاہدے سے متعلق اپنے رضاکارانہ اقدامات سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا ہے۔
ایران کی پارلیمنٹ یعنی مجلس شورائے اسلامی نے گزشتہ یکم دسمبر کو ایک قانون کی منظوری دیتے ہوئے حکومت کو اس بات کا پابند بنایا کہ ایران کے خلاف امریکی پابندیاں جاری رہنے کی صورت میں وہ ایٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کے ساتھ تعاون کو محدود کرتے ہوئے ایٹمی معاہدے سے متعلق اپنے رضاکارانہ اقدامات کا سلسلہ روک دے۔
قابل ذکر ہے کہ بین الاقوامی ایٹمی معاہدے کی شق نمبر چھبیس اور چھتیس کے تحت ایران کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ مقابل فریق ملکوں کی جانب سے اپنے وعدوں پر عمل نہ کئے جانے کی صورت میں جزوی یا کلی طور پر ایٹمی معاہدے کے دائرے میں اپنے وعدوں پر عمل کرنے سے پسپائی اختیار کرے۔