صرف نعروں سے ایٹمی معاہدے کا تحفظ نہیں ہو سکتا، صدر ایران ڈاکٹر روحانی
اسلامی جمہوریہ ایران نے دو ٹوک الفاظ میں واضح کر دیا ہے کہ ایٹمی معاہدے پر اب کسی بھی قسم کے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے اور اس بات کو جان لینا چاہئے کہ صرف نعروں سے ایٹمی معاہدے کا تحفظ نہیں ہو سکتا اس لئے اس کے تحفظ اور اسے بحال رکھنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے پابندیاں ختم کر دی جائیں۔
صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے بدھ کے روز کابینہ کے اجلاس میں کہا ہے کہ ایران کے لئے اصولی اہم بات یہ ہے کہ پابندیاں ختم اور ایرانی قوم کے حقوق بحال کئے جائیں جبکہ امریکہ کی جانب سے اب تک اس سلسلے میں کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ امریکہ کی موجودہ برسر اقتدار حکومت نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ سابق ٹرمپ حکومت کا طریقہ غلط رہا ہے، اب اگر موجودہ امریکی حکومت ایران کے خلاف ساری پابندیاں ختم کرتی ہے تو ایران بھی فوری طور پر اپنے تمام وعدوں پر عمل کرنا شروع کردے گا۔
صدر مملکت نے کہا کہ یورپ و امریکہ صرف نعرے لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایٹمی معاہدے میں واپسی ہو گی مگر صرف نعرے کافی نہیں اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر حسن روحانی نے اسی طرح امریکہ کے سابق صدر ٹرمپ کے فیصلوں میں صیہونیوں کے اثرانداز ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ بظاہر نعرے لگاتے اور کہتے تھے کہ امریکہ فرسٹ، مگر عمل کے میدان میں صیہونیزم فرسٹ، انتہا پسندی سیکنڈ، نسل پرستی تھرڈ اور امریکہ فورتھ تھا۔
انھوں نے کہا کہ صیہونیوں نے ٹرمپ کو غافل کیا اور انھیں ایک غلط راستے پر لا کھڑا کر دیا۔
صدر ایران ڈاکٹر حسن روحانی نے اسی طرح زور دے کر کہا ہے کہ ایٹمی معاہدے پر ہرگز دوبارہ مذاکرات نہیں ہوں گے اور اسے محفوظ رکھنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ امریکہ پابندیاں ختم کرے۔
صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی نے منگل کے روز فرانس کے صدر امانوئل میکراں سے ٹیلی فونی گفتگو میں ایٹمی معاہدے کو ایک کثیر فریقی عالمی معاہدہ بتایا اور کہا کہ اس معاہدے پر پھر سے مذاکرات نہیں ہو سکتے اور اسے محفوظ رکھنے اور بحال کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ امریکہ اپنی تمام پابندیوں کو ختم کرے۔
صدر مملکت نے تاکید کی کہ ایٹمی معاہدے کے تحفظ و بحالی کے مواقع اگر ہاتھ سے نکل گئے تو حالات بدتر ہو جائیں گے۔
انھوں نے کہا کہ ایران نے اس معاہدے سے امریکہ کے نکلنے اور تین یورپی ملکوں کی جانب سے اپنے وعدوں کو پورا نہ کرنے کے سبب ہی بتدریج اپنی ذمہ داریوں پر عمل کم کر دیا ہے اور جیسے ہی مقابل فریق اپنے وعدوں پر عمل کریں گے، ایران بھی فورا اپنی ذمہ داریوں پر عمل کی طرف لوٹ سکتا ہے۔
صدر ایران نے این پی ٹی کے اضافی پروٹوکول پر رضاکارانہ عمل کے خاتمے کو پارلیمنٹ کے منظور شدہ قانون کے تناظر میں بتایا اور کہا کہ آئی اے ای اے کے ساتھ ہمارا تعاون بدستور جاری ہے اور ہم کبھی بھی ایٹمی معاہدے سے نہیں نکلے ہیں جبکہ ایران کی جوابی توقع یہ ہے کہ پرامن جوہری توانائی کے شعبے میں اس کے ساتھ بھرپور تعاون کیا جائے اور آئی اے ای اے کے ایک رکن ملک کی حیثیت سے ایران اپنے قانونی حق سے ہرگز چشم پوشی نہیں کرے گا۔
قابل ذکر ہے کہ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حال ہی میں تاکید فرمائی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران جوہری اور کیمیائی جیسے مہلک ہتھیاروں کو ممنوع سمجھتا ہے۔
تاہم آپ نے صراحت کے ساتھ فرمایا ہے کہ جوہری توانائی کے حصول سے متعلق کوشش کا ہمارا مقصد ملک کی ضروریات کے مطابق ہے اور اسی ضرورت کے مطابق یورینیم کی افزودگی بیس فیصد تک محدود نہیں رہے گی اور جہاں تک بھی ہمارے ملک کو ضرورت ہو گی ہم یورینیم کو افزودہ کریں گے اور اپنے ملک کی ضرورت کے مطابق ممکن ہے کہ ہم ساٹھ تک یورینیئم کو افزودہ کریں۔