امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان کا بیان
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایران کے بارے میں ایک سو چالیس امریکی ارکان کانگریس کے خط کو وائٹ ہاوس کی پالیسیوں کے ساتھ مکمل سازگار قرار دیا ہے۔
اے بی سی ٹیلی ویژن کے مطابق امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نڈ پرائس نے منگل کی شام صحافیوں کو یومیہ بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ایران کے بارے میں ایک سو چالیس ارکان نے صدر جو بائیڈن کے نام جو خط لکھا ہے اس کے مندرجات وائٹ ہاوس کی پالیسی کے مطابق ہیں۔انہوں نے کہا کہ معاہدے کی پابندی کے مقابلے میں پابندی پہلا قدم ہوگا اور اس کے بعد ہم اس معاہدے کے مندرجات کو مزید تقویت اور طویل المدت بنانا چاہتے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکہ کی دونوں جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ایک سو چالیس ارکان کانگریس نے جو بائیڈن حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ موجودہ ایٹمی معاہدے سے بھی وسیع تر معاہدے کے حصول کی کوشش کریں۔امریکی قانون سازوں کے اس گروہ نے صدر جوبائیڈن سے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایران کے بارے میں ملک کی دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے کو اپنا مقصد بنائیں اور تہران کے ساتھ ایسے جامع معاہدے کے حصول کی کوشش کریں جس میں ایٹمی مسائل کے ساتھ ساتھ دیگر معاملات بھی شامل ہوں۔
صدر جو بائیڈن کے نام یہ خط جس پر ستر ڈیموکریٹ اور ستر ری پبلکن ارکان کانگریس نے دستخط کیے ہیں، منگل کے روز امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن کو ارسال کیا گیا ہے۔امریکی ارکان گانگریس کے مذکورہ ارکان نے نئے معاہدے کے حوالے سے مطلوبہ شرائط کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایران کے میزائل پروگرام کو روکنے اور ایٹمی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے ساتھ ساتھ تہران کی علاقائی سرگرمیوں کو قابو میں کیا جائے۔
یہ درخواست ایسے وقت میں سامنے آئی ہے کہ جب یہ امریکہ ہی تھا جس نے ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خود سرانہ اور غیر قانونی طور پر اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔اسلامی جمہوریہ ایران پہلے ہی واضح کرچکا ہے کہ چونکہ امریکہ نے ایٹمی معاہدے سے علیحدگی اختیار کی تھی اور ایران نے واشنگٹن کے اس غیر قانونی اقدام کے جواب میں معاہدے پر علمدرآمد کی سطح میں کمی کی ہے لہذا اب تہران صرف پابندیوں کے مکمل خاتمے کی صورت میں ہی کوئی قدم اٹھانے کو تیار ہوگا۔ایران یہ بھی واضح کرچکا ہے کہ وہ ایٹمی معاہدے میں امریکہ کی واپسی اور پابندیوں کے خاتمے کے تعلق سے نہ تو کوئی شرط قبول کرے گا اور نہ ہی واشنگٹن اور اس کے اتحادیوں کے نئے مطالبات تسلیم گرے گا۔