Aug ۰۹, ۲۰۲۲ ۲۲:۰۳ Asia/Tehran
  • ایران- سعودی مذاکرات کہاں تک پہنچے؟

ایران اور سعودی عرب کے درمیان سیکورٹی سطح پر مذاکرات کے پانچویں دور ہوئے جن کے اختتام پر تہران نے کہا کہ وہ سفارتخانوں کو دوبارہ کھولے جانے پر متفق ہے۔

سحر نیوز/ ایران: دونوں فریق کے درمیان یہ اتفاق بھی ہوا ہے کہ اب مذاکرات سفارتکاروں کے سطح پر ہوں  گے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان نے کہا کہ مذاکرات میں ثالثی کا کردار ادا کرنے والے بغداد نے تہران کو اطلاع دی ہے کہ ریاض حکومت مذاکرات کو سفارتکاروں  کے سطح پر لے جانے پر متفق ہو گئی ہے اور ایران بھی سعودی عرب سے کہہ چکا ہے کہ سفارتی تعلقات بحال کرنے کے لئے تیار ہے۔

وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان نے یہ بھی بتایا کہ امارات اور کویت نے کہا ہے کہ وہ اپنے اپنے سفیروں کو تہران بھیجنے کے لئے تیار ہیں۔ سعودی عرب نے 2016 میں ایران سے سفارتی تعلقات منقطع کر لئے تھے تو اس وقت کویت اور امارات نے سفارتی تعلقات کی سطح کم کر دی تھی۔

تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ جنگ یمن کا مسئلہ دونوں ممالک کے مذاکرات میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی اور اسی کی وجہ سے 16 مہینے تک مذاکرات چلتے رہے تاہم اس درمیان کئی مسئلے پر اتفاق ہوگیا ہے۔  

ایران کے سینئر تجزیہ نگار حسن ہانی زادہ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور تحریک انصار اللہ کے درمیان جنگ بندی سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان کئی مسائل کو حل کرنے میں مدد ملی ہے اور اب امید کی جا رہی ہے کہ چھٹیں دور کے مذاکرات میں کامیابی ملے گی۔  ان کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات بحال ہوتے ہیں تو کئی شعبوں کا مسائل کا حل تلاش کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

ہانی زادہ کا کہنا ہے کہ علاقہ بڑی شدید تبدیلی سے گزر رہا ہے اور اسی تبدیلی کو دیکھتے ہوئے امریکا کے صدر جو بائیڈن نے دورہ کیا۔ وہیں کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ مستقل حل نہیں بلکہ کشیدگی کم کرنے کی ٹیکٹک ہے۔

کچھ لوگ یہ قیاس لگا رہے ہیں کہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان بغداد جاکر سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان سے ملاقات کریں گے۔ جو بائیڈن نے جدہ سربراہی اجلاس میں جو کچھ حاصل کرنے کی کوشش کی وہ انہیں حاصل نہیں ہوا۔ وہ چاہتے تھے کہ ایران کا مقابلہ کرنے کے لئے اتفاق ہو جائے اور اسرائیل کو سیکورٹی حاصل ہو جائے تاہم خلیج فارس کے ممالک نے یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ وہ ایران کے ساتھ اپنی کشیدگی کم کرنا چاہتے ہیں۔

جب عرب ممالک ایران سے تعلقات کو بحال کر رہے ہیں اور کچھ ممالک تعلقات کی سطح بڑھا رہے ہیں تو یہ بھی طے ہے کہ علاقے میں اسرائیل کا اثر و رسوخ کم ہو رہا ہے۔

در ایں اثنا روس بھی سرگرم ہے۔ روس یہ دیکھ رہا ہے کہ اگر عرب ممالک اور ایران ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں تو یہ روس کے فائدے کی بات ہوگی کیونکہ یہ ملک بھی علاقے سے امریکا کو باہر کرنے کی کوشش کریں گے۔

سینئر تجزیہ نگار محمد صالح صادقیان کا کہنا ہے کہ علاقہ اور عالمی تبدیلیوں نے ایران اور عرب ممالک کو اچھی طرح سمجھا دیا ہے کہ انہیں اپنے اختلافات کو دور کرکے تعاون کا راستہ نکالنا ہوگا ورنہ سب کا نقصان ہی نقصان ہوگا۔

اطلاع ہے کہ سعودی عرب کا وفد تہران کے دورے پر پہنچا ہے کہ سعودی سفارتخانے کی عمارت کا جائزہ لے رہا ہے۔ وفد نے شمال مشرقی مشہد کا بھی دورہ کیا جہاں سعودی عرب کا قونصل خانہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے سفارتکار اب ایک دوسرے کے یہاں لوٹنے والے ہیں۔

تجزیہ نگار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ایران اور سعودی عرب اگر ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں تو اس میں امریکی صدر جو بائیڈن کے سعودی عرب کے دورے کی ناکامی کا کوئی کردار نہیں ہے۔ ایران، سعودی عرب کو الگ نظر سے دیکھ رہا ہے۔

مشرق وسطی کا علاقہ بہت حساس ہے اور طویل عرصے سے یہ بحرانوں کا مرکز بھی رہا ہے۔ اس علاقے میں اسرائیل کے آ جانے سے کشیدگی اور تنازع کو ہوا مل رہی ہے تاہم علاقے کے عرب ممالک اور ایران اس وقت گہری سوج بوجھ سے آگے قدم بڑھا رہے ہیں۔

 

ٹیگس