ایران اور سعودی عرب کے تعلقات پر اسرائیل کی تشویش کی وجہ سامنے آ گئی
علی باقری کنی نے پولینڈ کے اپنے ہم منصب کے ساتھ ملاقات کے لئے وارسا کے دورے پر ہیں اس ملک میں تعینات کئی غیر ملکی سفراء سے ایک ملاقات میں کہا کہ ایران کی ہمسایہ ممالک سے متعلق پالیسی سے نہ صرف یہ کہ ایران اور اس کے پڑوسیوں کے درمیان تعلقات میں بہتری آئی ہے بلکہ اس سے معاشی تعاون کے حالات بھی فراہم ہوئے ہیں۔
سحر نیوز/ ایران: اسلامی جمہوریہ ایران کے نائـب وزیر خارجہ علی باقری کنی نے ایران کی موجودہ حکومت کی ہمسایہ ممالک کے سلسلے میں اختیار کی جانے والی پالیسی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ایک دوسرے پر سیاسی مسائل کے حل کے لئے اعتماد، علاقائی صلاحیتوں پر اعتماد، ترقی و پیش رفت کے لئے علاقے سے باہر کے وسائل کا استعمال اور معاشی تعلقات میں استحکام لانا ہمسایہ ممالک کے حوالے سے ایران کی پالیسی کے اہم عناصر ہيں۔
علی باقری کنی نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تہران اور ریاض کے اس اسٹریٹجک قدم سے یہ ثابت ہو گیا کہ علاقائی ممالک سیاسی طور پر کس حد تک بالغ نظر ہیں اور وہ علاقائی مسائل خود حل کر سکتے ہيں۔
ایران کے نائـب وزیر خارجہ نے ایران و سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی کا تمام سیاسی فریقوں کی جانب سے کئے گئے خیر مقدم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ صرف غاصب صیہونی حکومت، تہران و ریاض کے تعلقات کی بحالی سے فکر مند ہو گئی اور اپنی اس تشویش کو چھپا بھی نہیں سکی۔
اس لئے کہ غاصب صیہونی حکومت کی بنیاد ہی عدم استحکام اور کشیدگی پر رکھی گئي ہے اور اس پورے علاقے میں بد امنی کا وہی واحد ذریعہ ہے۔
علی باقری کنی نے علاقے میں نیٹو کے کردار کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں نیٹو کی موجودگی نے سب کے سامنے یہ ثابت کر دیا کہ نیٹو سے نہ صرف یہ کہ امن و امان قائم نہيں ہوتا، بلکہ یہ تنظیم بد امنی پھیلانے والے ایک عنصر کی طرح کام کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں نیٹو کے رکن ملکوں کی 20 برسوں تک موجودگی کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس ملک میں منشیات کی پیداوار میں 45 گنا اضافہ ہو ۔