امام خمینی واقعہ کربلا کا تسلسل ہیں : مغربی محقق
مغربی محقق اور دانشور مائیکل فشر کی نظر میں آیت اللہ خمینی کی زندگی خود میں ایک انقلابی وسیلہ ہے ۔
ان کی زندگی کے رنج و الم کا پہلو ان کو کربلا سے وابستہ کرتا ہے ۔ یہ خصوصیت ان کے والد گرامی کے رضا شاہ کے کارندوں کے ہاتھوں قتل، ان کی ماں کی انصاف کے حصول کی کوشش، خود ان کی 1964 میں عراق کی جانب جلا وطنی اور کے بیٹے کے ساواک کے ایجنٹوں کے ہاتھوں قتل کی وجہ سے وجود میں آئی تھی ۔
وہ امام حسین علیہ السلام کی طرح ظلم کے خلاف جد جہد کا مظہر ہیں ۔ حضرت علی علیہ السلام کے مانند مذہبی اور سیاسی قیادت کا مظہر ہیں ۔ اماموں کے باوفا صحابہ کی طرح ذہن اور توانائی کے حصول اور خطروں کو کنٹرول کرنے میں مددگار ہیں ۔
در حقیقت وہ کربلا کے واقعہ کا تسلسل ہیں ۔ امام خمینی نے استعمار، شہنشاہیت، سفارتکاری، اقتصادی عدم مساوات پر منحصر طاقت اور ثقافت کے زوال کی وجہ سے اپنی شناخت کھونے کی تنقید کی، سماج اور حکومت کے لئے اخلاقی مواقف پیش کئے اور مراجع کرام کی قیادت، انقلابی عدالت اور آئین پر نظر رکھنے والی کونسل کی تشکیل کے ذریعے دفاعی حکمت عملی اختیار کی ۔
مائکل فشر کہتے ہیں کہ آیت اللہ خمینی نے پیغامات ارسال کرنے کے لئے بہت سے کام انجام دیئے اور اپنی پندرہ سالہ جلاوطنی کے زمانے میں انقلابی اقدامات کے لئے بہت زیادہ کوششیں کی ۔ وہ اپنی کتاب میں اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ امام خمینی 1963 سے شاہ کی مخالف کرنے والوں کے مظہر بن گئے اور اس کا عروج کربلا کی مجالس عزا تھی جس نے امام حسین عیلہ پر گریہ کرنے اور انسانیت کے آخری نجات دہندہ اور منجی عالم بشریت کے انتظار کو شاہی حکومت کے زوال کے لئے مزاحمت کے طور پر اختیار کر لیا ۔