سعودی عرب اور ترکی کی شام میں زمینی فوج بھیجنے کے اپنے موقف سے پسپائی
سعودی عرب اور ترکی نے شام میں زمینی فوج بھیجنے کے اپنے موقف سے واضح طور پر پسپائی اختیار کرلی ہے۔
سعودی اور ترک حکام کا کہنا ہے کہ وہ شام میں اپنی فوج بھیجنے کے لئے امریکا کی ہری جھنڈی اور شام میں جنگ بندی کے نتیجے کا انتظارکریں گے -
ترکی کے وزیراعظم احمد داؤد اوغلو نے منگل کو حکمراں انصاف اور ترقی پارٹی کے ممبران پارلیمنٹ کے درمیان تقریر کرتے ہوئے کہا کہ انقرہ شام کی جنگ میں پھنسنے سے اجتناب کرنے کےلئے اپنی پیشگی کارروائیاں جاری رکھے گا -
ترک وزیراعظم نے یہ بیان ایک ایسے وقت دیا ہے جب ترک فوجیں پچھلے کئی روز سے شامی کردوں کے ٹھکانوں پر توپخانوں سے حملے کررہی ہیں -
ترکی اور سعودی عرب کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ اپنی فوجیں شام میں بھیجنے کے لئے تیارہیں لیکن وہ امریکا کے اشارے کے منتظر ہیں -
اس درمیان ترکی کے ایک عہدیدار نے منگل کو اپنے بیان میں کہا کہ انقرہ کو اگر اس بات کا احساس ہوجائے کہ اسے اکیلے ہی شام میں فوجی کارروائی کر دینی چاہئے تب بھی وہ ایسا نہیں کرے گا -
مذکورہ ترک عہدیدار نے استنبول میں نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ترکی شام میں یکطرفہ کارروائی کا ارادہ نہیں رکھتا البتہ ہم اپنے اتحادی ملکوں سے یہ کہتےہیں کہ وہ شام میں فوجی کارروائی کریں -
اس ترک عہدیدار نے، جس کا نام اس رپورٹ میں نہیں لیا گیا، کہاکہ سعودی عرب کے چار لڑاکا طیارے فروری کے آخر تک ترکی کی اینجرلیک فوجی چھاؤنی میں پہنچ جائیں گے -
ترک عہدیدار کے اس بیان سے ترکی اور سعودی عرب کے حکام کے وہ بیانات غلط ثابت ہوجاتے ہیں جن میں انہوں نے کہا تھا کہ ریاض نے اپنے لڑاکا طیارے ترکی پہنچادیئے ہیں -
اس سے پہلے ترک وزیردفاع نے بھی اتوار کو کہا تھا کہ ان کا ملک شام میں فوجی مداخلت نہیں کرنا چاہتا -