شام میں جنگ بندی کی خلاف ورزی
شام میں جنگ بندی نافذ ہونے کے باوجود دہشت گردوں نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے متعدد عام شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
دہشت گردوں نے دمشق کے رہائشی اور اس کے مضافاتی علاقوں پر گولہ باری کی جس کے نتیجے میں متعدد عام شہری جاں بحق ہو گئے۔ اس درمیان داعش دہشت گردوں نے دیرالزور کے علاقوں الحورہ اور القصور پر دسیوں مارٹر گولے فائر کئے جس کے نتیجے میں کم سے کم تین معصوم بچے جاں بحق اور بارہ دیگر زخمی ہو گئے، جبکہ حماہ میں بھی ہونے والے تین بم دھماکوں میں چھے عام شہری جاں بحق اور متعدد دیگر زخمی ہوئے ہیں۔
دوسری جانب شام کے شمالی علاقے تل ابیض میں داعش اور کرد ملیشیا کے درمیان شدید لڑائیوں کے دوران کم سے کم پینتالیس دہشت گرد اور کرد ملیشیا کے بیس افراد مارے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ شام میں ہفتے کی صبح سے جنگ بندی نافذ ہو چکی ہے۔ یہ جنگ بندی روس اور امریکا کے درمیان اتفاق رائے کے نتیجے میں برسرعمل آئی ہے جبکہ اس جنگ بندی میں داعش اور جبہۃ النصرہ جیسے دہشت گرد گروہوں کے ٹھکانوں پر حملوں کو مستثنی رکھا گیا ہے۔
جنگ بندی کے سمجھوتے میں کہا گیا ہے کہ داعش اور جبہۃ النصرہ کے ٹھکانوں پر حملے جاری رہیں گے۔ جنگ بندی کے آغاز سے پہلے ہی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد دو ہزار دو سو اڑسٹھ پاس کر کے شام میں سبھی متحارب فریقوں سے کہا تھا کہ وہ جنگ بندی سے متعلق روس اور امریکا کے درمیان ہونے والے سمجھوتے کی پابندی کریں۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے نائب وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے اس سے پہلے کہا تھا کہ شام میں ایک پائیدار جنگ بندی کے لئے ضروری ہے کہ دہشت گردوں کے ساتھ مسلح گروہوں کے تعلقات کی نوعیت واضح ہو۔
ایران کے نائب وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اس بات کی اجازت نہیں ہونی چاہئے کہ جنگ بندی کی آڑ میں دہشت گرد گروہ خود کو اسلحے سے لیس اور ازسر نو آمادہ کریں اور یوں مذاکرات کے سیاسی عمل کو سبوتاژ کریں۔ دوسری جانب لندن سے شائع ہونے والے اخبار رای الیوم نے لکھا ہے کہ شام میں جنگ بندی کی کامیابی کا امکان بہت ہی کم ہے۔ مذکورہ اخبار نے لکھا ہے کہ شام میں فوج اور دہشت گردوں کے درمیان جنگ بندی کی کامیابی کا امکان بے شمار وجوہات کی بنا پر بہت کم ہے۔
اخبار رای الیوم نے لکھا ہے کہ ترکی پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ وہ اس جنگ بندی کا پابند نہیں ہے اور کردوں کے ٹھکانوں پر اپنے حملے جاری رکھے گا۔ اس اخبار نے مزید لکھا ہے کہ یہ عجیب و غریب جنگ بندی ہے کیونکہ اس کے بارے میں صرف دو ملکوں روس اور امریکا نے اتفاق کیا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ اس بحران کے اصلی فریقوں حتی شام اور شام سے باہر مقیم گروہوں سے بھی اس جنگ بندی کے لئے مشورہ نہیں کیا گیا ہے جبکہ دہشت گرد گروہ جبہۃ النصرہ نے اس جنگ بندی کی مخالفت کا اعلان کرتے ہوئے سبھی مسلح گروہوں سے کہا ہے کہ وہ اس کی خلاف ورزی کریں۔
ہفتے کو اس جنگ بندی کے نفاذ کے آغاز کے بعد شام کے باشندوں نے ایک بار پھر اپنا یہ بنیادی مطالبہ دوہرایا ہے کہ دہشت گردوں کو شام سے نکال باہر کیا جائے۔ شام کے مختلف شہروں منجملہ دارالحکومت دمشق کے شہریوں نے اس جنگ بندی کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ مغرب اور بعض عرب ملکوں کے حمایت یافتہ دہشت گردوں کی شام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ شام کے باشندوں کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کو ملک سے نکال باہر کئے جانے تک ان کے خلاف جنگ جاری رہنی چاہئے۔