ترکی میں 8 ہزار پولیس اہلکار برطرف
ترک حکام نے آٹھ ہزار پولیس اہلکاروں کو برطرف کر دیا ہے۔
خبروں کے مطابق ترک حکام نے انقرہ اور استنبول سمیت ملک بھر میں آٹھ ہزار پولیس اہلکاروں کو حکومت کے خلاف ناکام بغاوت میں ملوث ہونے کے الزام میں فوری طور پر برطرف کر دیا ہے۔
یہ اقدام ناکام فوجی بغاوت کے بعد کیے جانے والے سیکورٹی اقدامات کا حصہ ہے جس کے دوران ہفتے سے اب تک تقریبا چھے ہزار افراد کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے۔ گرفتار شدگان میں فوجی حکام ، جج اور دیگر محکموں کے اعلی عہدیدار شامل ہیں۔
تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ملک میں جمعے اور ہفتے کی شب ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے دوران ایک سو ساٹھ باغیوں سمیت دو سو نوے افراد ہلاک اور تقریبا ایک ہزار چار سو افراد زخمی ہوئے۔
ترکی میں فوجی بغاوت میں ملوث ہونے کے شبہے میں کی جانے والی گرفتاریوں اور پھانسی کی سزا پرعائد پابندی کو ختم کرنے کے اعلانات پر کڑی نکتہ چینی کی جا رہی ہے۔
ترک حکومت امریکہ میں مقیم حکومت مخالف رہنما فتح اللہ گولن کو ناکام بغاوت کا اصل ذمہ دار قرار دیتی ہے جس کی انہوں نے سختی کے ساتھ تردید کی ہے۔
فتح اللہ گولن نے اپنے تازہ بیان میں فوجی بغاوت کے الزام میں ججوں اور پولیس اہلکاروں کی گرفتاری کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے بھی ایک طرح کی بغاوت قرار دیا ہے۔
انہوں نے ناکام فوجی بغاوت کے بعد بڑے پیمانے پر سیکورٹی اہلکاروں کی گرفتاری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بھی ایک طرح کی بغاوت ہے اور یہ بغاوت بھی بقول ان کے ملک میں جمہوریت کو محفوظ نہیں کر سکتی۔
فتح گولن نے الزام لگایا کہ اردوغان حکومت ناکام فوجی بغاوت کے بہانے کرپشن مخالف ججوں اور پولیس افسران کو باغی قرار دے رہی ہے اور ہم اس طرح کی بغاوت کے بھی مخالف ہیں بلکہ ہم کسی کے بھی خلاف کسی بھی طرح کی بغاوت کی حق میں نہیں ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ جمعے اور ہفتے کی درمیانی رات بعض ترک فوجیوں نے استنبول کے دو اہم پلوں کو بند اور دیگر شہروں میں ہوائی اڈوں، ریڈیو ٹیلی ویژن کی عمارتوں اور دیگر اہم اداروں پر قبضہ کر کے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تاہم چند گھنٹے کے بعد ان کی یہ کوشش ناکام ہو گئی۔