Sep ۰۳, ۲۰۱۸ ۱۲:۲۱ Asia/Tehran
  • ادلب آپریشن کا درد زہ!!! + مقالہ

شام میں دہشت گردوں کے آخری ٹھکانے ادلب میں شامی فوج کے آپریشن پر امریکا اور اسرائیل کا شور وغوغہ ایک معمولی سی بات ہے۔

جب کبھی بھی شامی فوج نے ملک میں داعش اور القاعدہ جیسے خطرناک دہشت گرد گروہوں کے خلاف کوئی فیصلہ کن قدم اٹھایا ہے، امریکا حکومت دمشق کے خلاف وسیع پیمانے پر پروپگینڈے شروع کر دیتا ہے۔

تاہم جس طرح سے حلب اور مشرقی غوطہ میں دہشت گردوں کو بچانے کے لئے امریکا کی یہ سازشیں ناکام ہو گئیں، ادلب میں بھی اس کی سازشوں پر پانی پھرتا نظر آ رہا ہے۔  

امریکا اس حالت میں نہیں ہے کہ شام میں اپنے حامی گروہوں کی مدد سے براہ راست جنگ میں کود پڑے، اس لئے کہ عراق اور افغانستان جنگ کے تلخ تجربات ابھی بھی انہیں یاد ہیں۔

امریکا کے متعدد سیاسی اداروں نے بھی پینٹاگن کو خبردار کیا ہے کہ علاقے میں کسی بھی جنگ میں براہ راست شامل ہونا بہت بڑی بیوقوفی ہوگی، اس لئے کہ اس کا نتیجہ شکست اور نقصان کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے، اس کے بجائے اسے علاقے میں اپنے حامی دہشت گرد گروہوں پر ہی اعتماد کرنا چاہئے۔

دوسری جانب ترکی کو شام میں اور بین الاقوامی سطح پر بہت ہی پیچیدہ صورت حال کا سامنا ہے جس کی وجہ سے یہ ملک بھی براہ راست شام سے تصادم سے پرہیز کر رہا ہے۔

حلب میں ہونے والی جنگ کو ترکی نے اپنی جنگ قرار دیا تھا اور وسیع پیمانے پر متعدد مسلح گرہوں کی بھرپور حمایت کی تھی تاہم ترک فوج نے جب دیکھا کہ شامی فوج نے دہشت گردوں کے خلاف جنگ شروع کر دی تو اس نے اس علاقے سے عقب نشینی کو ہی مناسب سمجھا۔  

اس وقت ترکی نے حلب میں بر سر پیکار دہشت گردوں سے پسپائی کرنے اور ادلب میں پناہ لینے کی درخواست کی تھی۔

آج ترکی کی حالت جنگ حلب کے وقت کی بہ نسبت بہت زیادہ کمزور ہے اس لئے اس بات کا کوئی اندیشہ نہیں ہے کہ ادلب پر دہشت گرد گروہوں کے قبضے کو روکنے کے لئے ترک فوج جنگ کی آگ میں خود کو جھونک دے گی۔

بہرحال یہ کہا جا سکتا ہے کہ ادلب میں دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن فوجی مہم پر امریکا اور اس کے اتحادی جتنا بھی ہنگامہ کریں اور غم و غصے کا اظہار کریں، دہشت گردوں کے منحوس وجود سے پاک ادلب کا جنم ہونا ہی ہے۔

ٹیگس