Sep ۰۴, ۲۰۱۸ ۰۶:۵۰ Asia/Tehran
  • ادلب آپریشن پر ہنگامہ اور دہشت گردوں کے پاس آپشن + مقالہ

شمالی شام کا صوبہ ادلب اس وقت سیاسی اور میڈیا حلقوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ شام کی فوج اس علاقے میں فوجی آپریشن شروع کرنے کی تیاری پوری کر چکی ہے۔

اس حوالے سے کچھ اہم واقعات رونما ہوئے ہیں۔ اس وقت ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف دمشق کے دورے پر ہیں جہاں شامی صدر، وزیر خارجہ اور وزیر اعظم نیز دیگر حکام سے ان کی ملاقاتیں ہوئیں۔

شام کے وزیر خارجہ ولید المعلم نے بیان دیا کہ ایران میں ترکی، روس اور ایران کے سربراہی اجلاس میں ادلب کو آزاد کرانے کے موضوع پر گفتگو ہوگي۔ یہ اجلاس 7 ستمبر کو منعقد ہونے والا ہے۔

ادھر ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے نصرہ فرنٹ کی حمایت روک کر یہ کہہ دیا ہے کہ وہ دہشت گرد گروہ ہے۔ اس سے پہلے ترکی نے اس تنظیم سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ خود کو معطل کرکے اپنے جنگجوؤں سے کہہ دے کہ وہ ہتھیار ترک کردیں تاہم نصرہ فرنٹ نے ترکی کے مطالبے کو مسترد کر دیا۔

روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے بھی بیان دیا ہے کہ شام کے شمالی علاقے ادلب میں جو حالات ہیں وہ ہمیشہ تک تو جاری نہیں رہ سکتے۔ یہ ضروری ہے کہ باغی تنظیموں اور دہشت گرد گروہوں کو ایک دوسرے سے جدا کیا جائے۔ ماسکو میں انٹرنیشنل ریلیشنز سینٹر میں تقریر کرتے ہوئے لاوروف نے کہا کہ ادلب میں بارہا جنگ بندی کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ یہاں سے شامی فوج کے ٹھکانوں پر گولی باری کی جاتی ہے بلکہ فوج کے ٹھکانوں پر وسیع حملوں کی کوشش بھی ہو رہی ہے۔ یہی نہیں ادلب سے ہماری حمیمیم چھاونی پر ڈرون طیاروں سے حملے کی بھی کوشش ہو چکی ہے، اب تک 50 ڈرون طیاروں کو سرنگوں کیا جا چکا ہے۔ اس صورتحال پر ہمیشہ کے لئے خاموش نہيں رہا جا سکتا۔ ہم ترکی، شام اور ایران کے حکام سے گفتگو کر رہے ہیں کہ باغی تنظیموں اور دہشت گرد گروہوں کو ایک دوسرے سے جدا کیا جائے اور پھر دہشت گردوں کے خلاف اس طرح کی کاروائی کی جائے کہ عام شہری نشانہ نہ بنیں۔  شام میں دہشت گردوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے اور شامی حکومت کو پورا حق ہے کہ وہ دہشت گردوں کے مکمل خاتمے کے لئے اقدامات کرے۔

ایران کے وزیر خارجہ کے دورہ دمشق کی بات کی جاغے تو ادلب کی جنگ سے پہلے ہونے والا یہ اہم دورہ ہے۔ ویسے ایران، ترکی اور روس کے سربراہی اجلاس سے پہلے یہ دورہ اس لئے ہو رہا ہے کہ سربراہی اجلاس کی تیاریاں مکمل کی جا سکیں۔

دمشق پہنچنے کے بعد جواد ظریف نے بھی کہا کہ شام اس وقت اپنی سرزمین کو دہشت گردوں سے پاک کر رہا ہے۔ اب نصرہ فرنٹ اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ شام کی سرزمین ترک کر دیں۔

ایران، شام، روس اور ترک حکام کے بیانوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ادلب کو دہشت گردوں کے قبضے سے آزاد کرانے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے اور اب کبھی بھی فوجی آپریشن شروع ہو سکتا ہے۔

ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اس سے پہلے حلب اور مشرقی غوطہ جیسے علاقوں میں جب شامی فوج اور اتحادی فورسز کا آپریشن ہوا تو آخری آپشن کے طور پر دہشت گردوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور اپنے خاندان کے ساتھ وہاں سے نکل کر ادلب چلے گئے مگر اب جب ادلب پر فوجی آپریشن شروع ہونے جا رہا ہے تو دہشت گردوں کا خاتمہ یقینی ہے کیونکہ ان دہشت گردوں کو شام کے اندر یا باہر کہیں بھی نہیں بھیجا جا سکتا۔

جس وقت شام کا بحران شروعاتی دور میں تھا اور الگ الگ ممالک سے دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو جمع کرکے شام لایا جا رہا تھا اس وقت حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے دہشت گردوں سے کہا تھا کہ وہ کسی دھوکے میں نہ رہیں، انہیں ایک منصوبے کے تحت شام میں جمع کیا جا رہا ہے تاکہ ایک ساتھ ان سب کا خاتمہ کر دیا جائے۔ اگر آج ادلب آپریشن کو دیکھا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ سید حسن نصر اللہ کی بات بالکل صحیح تھی۔ جو افراد دھوکے میں آ گئے اور بڑی طاقتوں اور ان کے علاقائی اتحادیوں کے منصوبے کا حصہ بن کرشام میں جمع ہوگئے، ان کے پاس اب موت کے علاوہ کوئی راستہ بچا نہیں ہے۔

ٹیگس