ادلب کے بارے میں محاذ آرائیاں + مقالہ
شمالی شام کا علاقہ ادلب اس وقت عالمی سطح پر میڈیا اور سیاسی حلقوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
امریکی حکام کی جانب سے بیان دیا گیا ہے کہ اگر شامی فوج نے ادلب میں آپریشن کے دوران کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا تو اسے ریڈ لائن کی خلاف ورزی تصور کیا جائے گا۔
یہ حقیقت میں شام پر حملہ کرنے کا امریکا، برطانیہ اور فرانس کا بہانہ ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ ادلب میں جو دہشت گرد تنظیمیں ہیں انہیں کسی طرح سے بچا لیا جائے اور بعد میں انہیں استعمال کرکے شامی حکومت پر دباؤ ڈالا جائے۔
ترکی جو مغربی ممالک سے متعدد مسائل میں شدید اختلافات رکھتا ہے وہ بھی ادلب میں انتہا پسند گروہوں کی حفاظت کے درپے ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان میں ترکمن قوم کے جنگجوؤں کی ایک تنظیم بھی ہے جس کے بارے میں ترکی کا کہنا ہے کہ وہ ترک نژاد ہیں۔ اس کے علاوہ بھی نصرہ فرنٹ سمیت متعدد انتہا پسند گروہ وہ ہیں جن کی تشکیل میں ترک فوج اور خفیہ ایجنسیوں کا گہرا کردار رہا ہے۔ اسی لئے وہ بھی نہیں چاہتا کہ ان تنظیموں کا خاتمہ ہو جائے۔
تاہم در ایں اثنا اہم نکتہ یہ ہے کہ جتنے ممالک بھی ادلب میں انتہا پسند گروہوں کی حفاظت کی کوشش کر رہے ہیں وہ در حقیقت ادلب نہیں دمشق پر ان تنظیموں کے قبضے کے خواہاں تھے لیکن خواہش اور ہے اور زمینی حقیقت اور ہے۔
زمینی حقیقت یہ ہے کہ صدر بشار اسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے بنائی گئی یہ تنظمییں اس وقت ملک کے دیگر حصوں سے بے دخل کی جا چکی ہیں اور اس وقت وہ ادلب میں جمع ہیں۔ شامی حکومت اور فوج نے ایران، روس اور حزب اللہ جیسے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر حلب، حمص اور درعا سمیت ملک کے اہم علاقوں کو ایک ایک کرکے دہشت گردوں کے قبضے سے ازاد کرایا ہے تو یہ بھی طے ہے کہ وہ باقی ماندہ علاقوں کو بھی دہشت گردوں کے قبضے سے آزاد ضرور کرائے گی۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ چونکہ دہشت گرد گروہوں کے حامی بہت گھبرائے ہوئے ہیں اس لئے ادلب آپریشن وسیع پیمانے سے شروع کرنے سے پہلے جامع تیاریاں کرنی ہوں گی تاکہ ہر ممکنہ صورتحال سے نمٹا جا سکے۔
شامی فوج اور اتحادی فورسز اس علاقے میں بہت ہوشیاری اور دقت سے اقدامات کر رہی ہے۔ نتیجہ پہلے سے ہی واضح ہے کہ جس طرح دیگر علاقوں سے انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کا خاتمہ ہوا ہے، یہ علاقہ بھی اسی طرح دہشت گردوں کے قبضے سے آزاد کرا لیا جائے گا۔