ایران اور عراق کے ساتھ اپنے تعلقات پر فخر کرتے ہیں، شامی صدر
شام کے صدر بشار اسد نے دمشق، تہران ، بغداد کے تعلقات کو انتہائی مستحکم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تعلقات دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران میں مضبوط ہوئے ہیں۔
دمشق میں ایران اور عراق کے فوجی وفود کے ساتھ ملاقات میں شام کے صدر بشار اسد نے یہ بات زور دے کر کہی کہ تینوں ملکوں کی مسلح افواج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں انتہائی جانفشانی کا مظاہرہ کیا اور اس راہ میں بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ شام کی حکومت ایران اورعراق کے ساتھ اپنے تعلقات پر فخر کرتی ہے۔
صدربشاراسد نے یہ بات زور دے کر کہی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تینوں ملکوں کی مسلح افواج کے جوانوں نے مل کر قربانیاں دیں اور ان کا خون ایک دوسرے کے خون میں مل گیا ہے جس نے شام، ایران اور عراق کے تعلقات کی مستحکم بنیادیں فراہم کردی ہیں۔
بشاراسد کا کہنا تھا کہ یہ ملاقات ایسی اقدار اور بنیادوں کی خاطر انجام پارہی ہے جنہوں نے ہماری قوموں کو دوسری اقوام سے ممتاز بنایا ہے اور ہم ان پر فخر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان اقدار میں عزت نفس اور کرامت انسانی کے دفاع، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تینوں ملکوں کا اتحاد اور دشمن کے مقابلے میں ایک محاذ پر مجاہدت شامل ہیں۔
ایران کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل محمد باقری نے اس موقع پر کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور شام کا دفاع در اصل عراق اور ایران کے دفاع کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گرد پورے خطے کے لیے سنگین خطرہ ہیں اور تینوں ممالک آخری دہشت گرد کے خاتمے تک دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے۔
عراق کی مسلح افواج کے سربراہ عثمان الغانمی نے بھی جو اس ملاقات میں موجود تھے کہا کہ عراقی فوج شام کے تعاون سے مشترکہ سرحدوں پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی جاری رکھے گی۔
قابل ذکر ہے کہ دمشق میں ایران، شام اور عراق کی مسلح افواج کے سربراہوں کے اجلاس میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تینوں ملکوں کے درمیان جاری عسکری تعاون کا جائزہ لیا گیا۔اجلاس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شام کے وزیردفاع جنرل علی عبداللہ ایوب نے دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا دمشق حکومت کی اجازت کے بغیر شام آنے والے فوجیوں کی موجودگیغیرقانونی ہے اور انہیں آخر کار یہاں سے جانا ہی پڑے گا۔
شام کے وزیردفاع نے کہا کہ ہم داعش سے براہ راست جنگ میں مصروف ہیں اور ہمارے دوستوں اور اتحادیوں نے اس جنگ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ شام کی فوج جلد یا بہ دیر ملک کو امریکہ کی حمایت یافتہ دہشت گردوں کے وجود سے مکمل پاک کردے گی اور اپنی سرزمین کا ایک انچ بھی دشمن کے قبضے میں باقی رکھنے کی اجازت نہیں دے گی۔
واضح رہے کہ شام میں بحران سن دوہزار گیارہ میں اور عراق میں سن دوہزار چودہ میں اس وقت شروع ہوا تھا جب سعودی عرب، امریکہ اور اس کے بعض دوسرے علاقائی اتحادیوں کے حمایت یافتہ دہشت گردوں نے ان ملکوں میں وسیع سرگرمیوں کا آغاز اور متعدد شہروں اورعلاقوں پر قبضہ کرلیا تھا۔
اس سازش کا مقصد علاقائی طاقت کا توازن اسرائیل کے حق میں موڑنا تھا لیکن شام اورعراق کی مسلح افواج نے اسلامی جمہوریہ ایران کی فوجی مشاورت کے ذریعے دہشت گرد گروہ داعش کی بساط لپیٹ دی ہے اور دیگر دہشت گرد گروہ بھی اب ان ملکوں میں اپنی آخری سانسیں لے رہے ہیں۔