عرب دنیا میں انقلابات کی تبدیل ہوتی روش + مقالہ
وقت بدل گیا، ایک کے بعد ایک فوجی بغاوت ہوئی، ٹی وی چینلز پر بیان پڑھے گئے لیکن آج کی عرب دنیا میں الگ طرح کے انقلاب نظر آ رہے ہیں اور ٹی وی پر جاری ہونے والے بیان بھی الگ ہیں کیونکہ انقلاب لانے والوں میں عوام کا خوف ہے اور وہ ہر طرح سے عوام کو خوش کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں جس کی مثال عرب دنیا میں نہیں ملتی ۔
اگر سوڈان کی مثال لیں تو فوجی بغاوت کی قیادت کرنے والی جنرل فتاح برہان، سید محمد ناجی کے احکامات پر عمل کرتے نظر آتے ہیں جو ایک سوشل ورکر ہیں اور جنہوں نے گزشتہ چار مہینوں تک عوامی مظاہروں کی قیادت کی ۔
الجزائر میں بھی جنرل احمد قائد صالح بھی انقلاب کے رہنما کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے نظر آئے اور ایک کے بعد ایک احکامات پرعمل کرتے رہے، چاہے وہ صدارتی عہدے سے ہٹانے کی بات ہو یا ان کے قریبیوں کو نظر بند کرنے کے مطالبات ہوں ۔
سڑکوں پر ٹینکوں کا کارواں نظر نہیں آیا، فوجی، عوام کے ساتھ ہاتھ ملاتے نظر آئے اور مظاہرین کےساتھ سیلفی لی، انقلابی جوان بھی بھوکے اور غم و غصے میں ہونے کے باوجود محلوں کو لوٹتے نظر نہیں آئے، تو یہ ہوا کیا ہے ؟ کیسی تبدیلی آئی ہے ؟
سوڈان میں جرنل، "انقلاب" لفظ سے ہی پرہیز کر رہے ہیں حالانکہ ان سے پہلے والوں نے یہی کیا تھا ۔ سابق صدر عمر البشیر نے خود بھی یہی کیا تھا ۔
در اصل فوج نے اس شعبے میں ہمیشہ کی احکامات دیئے، استعماری طاقتوں کی خدمات کی، قومی مفاد کو نظر انداز کیا اور اپنے عوام پر بندوقیں تانے رکھی اس لئے جب عوام سڑکوں پر اترے تو اس نے اپنا راستہ منتخب کر لیا اور ٹینک و بندوق کا خوف بھی ختم ہو گیا ۔
سڑکوں پرعوام نظر آئے، فوجی نہیں کیونکہ عرب دنیا کی فوج کسی بھی جنگ میں اب تک کامیاب نہیں ہوئی ہے، یہی وجہ ہے کہ عرب دنیا میں، لبنان میں حزب اللہ، فلسطین میں حماس، عراق میں حشد الشعبی اور یمن میں انصار اللہ جیسی مسلح تنظیمیں وجود میں آئیں ۔
عرب دنیا میں جو فوجیں ہیں وہ امریکی امداد پر منحصر ہیں جس سے کسی کا کوئی فائدہ ہونے والا نہیں ہے کیونکہ اس طرح کی فوج کا کوئی فیصلہ آزادانہ نہیں ہوتا اور ہر فیصلہ، مدد اور ہتھیار فراہم کرنے والے امریکا کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ حالیہ کچھ برسوں میں اتنےعرب ممالک کے حکمرانوں کو اقتدار سے بے دخل ہونا پڑا۔ عمر البشیر آخری حکمراں نہیں، فہرست ابھی طویل ہے ۔
عرب دنیا میں انقلاب صحیح معنوں میں اسی وقت کامیاب ہوتا ہے جب اس کے پس پردہ سی آئی اے نہ ہو اور دانشور، ہنری لیوی نہ ہو اور جس کا مرکز تل ابیب نہ ہو، حالیہ انقلابات میں یہ سب کچھ نہ تھا، اس لئے ان کی کامیابی کا انداز الگ رہا ۔
بشکریہ
رای الیوم