مشرق وسطی کے حالات اور اسرائیل کے وجود کی جنگ + مقالہ
سلطنت عثمانیہ 5 صدیوں تک چلی، برطانوی استعمار اس سے کچھ کم چلا، صنعتی اور ٹکنالوجی انقلاب آنے کے بعد سب کچھ بدل گیا اور حالات میں ایک نئی تیزی پیدا ہوگئی ۔
سوویت یونین کا 70 سال کے اندر ہی شیرازہ بکھر گیا حالانکہ اس کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کا ذخیرہ تھا۔ آج میں یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ امریکی سامراج شدید بحران میں پھنس چکا ہے جو حکومتی بحران ہے۔
2008 میں اقتصادی بحران آیا جس نے سرمایہ داری نظام پر ہی سوالیہ نشان لگا دیئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ بحران صرف اقتصادی بحران نہیں بلکہ سیاسی اور سماجی بحران بھی تھا۔
یہ حقیقت تو سب سے سامنے آ چکی ہے کہ ایک فیصد آبادی، ملک کے سارے وسائل پر قبضہ جمائے بیٹھی ہے۔ امریکا میں آدھی آبادی کے پاس جتنی دولت ہے اتنی دولت امریکا کے 400 لوگوں کے پاس ہے۔
امریکا میں باراک اوباما کی حکومت آئی پھر ٹرمپ کی حکومت بر سر اقتدار آئی تاہم حالات کا رخ نہیں بدلا۔ اب ٹرمپ جن پالیسییوں پر کام کر رہے ہیں انہیں یہ دیکھ کر سمجھنا آسان ہے کہ امریکی حکومت سامراج کو سنبھالنے کے بجائے داخلی حالات میں الجھی ہوئی ہے اور دنیا کی قیادت کرنے کے بجائے اسے داخلی مسائل کی زیادہ فکر ہے۔
یہاں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جب امریکی حکومت اپنے داخلی مسائل میں گرفتار ہو گئی ہے تو پھر ان حکومتوں کا کیا ہوگا جو امریکی تحفظ کی وجہ سے اب تک محفوظ رہی ہیں ۔ ان میں کئی عرب حکومتوں اور اسرائیل کا نام لیا جا سکتا ہے۔ یہی حکومتیں جس مضبوط سہارے کی بدولت اب تک ٹکی ہوئی ہیں وہ سہارا اب اندر سے کھوکھلا ہوتا جا رہا ہے۔
امریکی سامراج کی بات کی جائے تو وہ اقتصادی ہارٹ اٹیک کے قریب ہے۔ سوویت یونین کی طرح دھیر دھیرے بکھرنے کے بجائے وہ اچانک پوری طرح بکھر جائے گی ۔ اگر ہمیں یہ سمجھنا ہو کہ عرب دنیا میں کیا ہونے والا ہے تو ہمیں واشنگٹن کے موسم کا حال معلوم کر لینا چاہئے۔ واشنگٹن اس وقت اپنے مسائل اور پریشانیوں میں پھنسا ہوا ہے۔
اب وہ کسی دوسرے کے لئے کوئی جنگ کرنے کی حالت میں نہیں ہے ۔ اب تو وہ اپنے فوجیوں کا خرچ بھی عرب ممالک اور پیٹرو ڈالر سے وصول رہا ہے۔
اگر اسرائیل کی بات کی جائے تو وہ خود بھی شدید مسائل ہی نہیں بلکہ وجود کے بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ اپنی فوجی طاقت کی وجہ سے پورے علاقے پر اپنی طاقت مسلط کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اسرائیل اس وقت اندر سے اتنا غیر محفوظ ہو چکا ہے کہ وہ کئی سال سے سخت محاصرے کے باوجود غزہ پٹی میں فلسطینی تنظیموں نے اپنی میزائل طاقت پیشرفتہ کر لی ہے جو پورے اسرائیل میں کبھی بھی اپنے اہداف کو نشانہ بنا سکتی ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ اسرائیل کے لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وائٹ ہاوس میں اس کے گہرے اثرو رسوخ ہیں ۔ وائٹ ہاوس، اسرائیل کی ہر خواہش پوری کر رہا ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس وقت اسرائیل میں نتن یاہو کی قیادت میں وہ طاقتیں بر سر اقتدار ہیں جو انتہا پسند ہیں اور جو اپرتھائیڈ نظام کی قیادت کرتی ہیں ۔ در اصل اس طرح کے نظام زیادہ دن تک نہیں چل پاتے ۔
اسرائیل ہو یا عرب آمر حکومتیں ہوں، ان کی تشکیل مغربی استعماری طاقتوں کے ہاتھ میں ہے ۔ اگر عرب حکومتوں کا تعاون نہ ہوتا تب بھی صیہونی حکومت کے لئے وجود بچا پانا نا ممکن تھا ۔
اسرائیل تین اسٹراٹیجی کے سہارے اب تک بچا ہوا ہے۔ پہلی چیز تو یہ ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کے باہر جنگ کرتا تھا۔ دوسری چیز یہ ہے کہ اس کی ساری جنگیں بہت کم وقت کی ہوتی تھیں کیونکہ جب جنگ ہوتیی ہے تو اسرائیل میں عام زندگی متاثر ہو جاتی ہے ۔ تیسری بات یہ ہے کہ اسرائیل کی جنگ ان فوجیوں سے ہوتی تھی جن کی تشکیل ملک اور عوام نہیں بلکہ حکومتوں کی حفاظت کے لئے کی گئی تھی ۔
اب بہت تبدیلی آ گئی ہے۔ آج کی جنگ مزاحمتی تنظیموں کی جنگ ہے ۔ یہ جنگ طولانی ہوتی ہے اور اب یہ جنگ اسرائیل کے اندر بھی لڑی جا رہی ہے ۔ اس طرح کی جنگوں میں اپنا وجود باقی رکھ پانا اسرائیل کے لئے ممکن نہیں ہے۔
بشکریہ
ڈاکٹر عبد الحی زلوم
مشہور تجزیہ نگار