آل سعود کی پسپائی،مرتجی کو سزائے موت نہیں دی جائے گی
ایک سعودی عہدے دار نے دعوا کیا ہے کہ مرتجی قریریص جو سعودی عرب میں سب سے کمسن قیدی شمار ہوتا ہے،اسے موت کی سزا نہیں دی جائے گی تاہم وہ 2022 تک جیل ہی میں قید رہے گا۔
فارس نیوز کے مطابق ایک سعودی عہدے دار نے نام فاش نہ ہونے کی شرط پر یہ خبر دی ہے کہ سعودی حکام نے بین الاقوامی دباؤ کے بعد سب سے کمسن قیدی مرتجی قریریص کی سزائے موت کو مجبورا منسوخ کر دیا ہے۔
مذکورہ سعودی عہدے دار نے رویٹرز نیوز ایجنسی کو بتایا ہے کہ اس شیعہ نوجوان کو 2014 میں گرفتار کئے جانے کے بعد 14 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
سعودی عہدے دار نے زور دے کر یہ بات کہی ہے کہ مرتجی کو سزائے موت نہیں دی جائے گی اور وہ ۲۰۲۲ میں آزاد کر دیا جائے گا۔
واضح رہے کہ دنیا بھر میں اس ممکنہ سزائے موت پر احتجاج ہوا ہے ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کی متعدد عالمی تنظیموں نے آل سعود کے اس فیصلے پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے گزشتہ ماہ اپنے ایک بیان میں اعلان کیا تھا کہ اس کمسن قیدی کو قید تنہائی میں رکھا گیا ہے اور وہ اب تک متعدد بار شدید ایذارسانیوں کا بھی شکار ہوا ہے۔جبکہ آل سعود نے اس عالمی تنظیم کے بیان کو ٹھکراتے ہوئے مضحکہ خیز دعوا یہ کیا ہے کہ ان کے ملک میں کوئی بھی سیاسی قیدی موجود نہیں ہے۔
گزشتہ بدھ کو آسٹریا کی حکومت نے بھی اس شیعہ بچے کی ممکنہ سزائے موت پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ وہ اپنے ملک میں سرگرم آل سعود سے وابستہ ’’دینی گفتگو‘‘ نامی مرکز کو بند کر دے گی۔
سی ان ان نیوز چینل نے 7 جون کو یہ اعلان کیا تھا کہ سعودی عرب کے اٹارنی نے اس نوجوان کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا تھا جو 2014 میں گرفتاری کے وقت صرف 13 برس کا تھا۔
مرتجی پر آل سعود نے گیارہ سال کی عمر سے ہی سنگین الزامات عائد کر رکھے ہیں۔