Oct ۰۱, ۲۰۱۹ ۰۶:۳۰ Asia/Tehran
  • اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے،

یمن کی مسلح افواج کے ترجمان یحیی السریع نے جب اعلان کیا کہ یمنی فوج اور رضاکار فورس نے سعودی عرب کی پوری بٹالین کو گرفتار کرلیا ہے اور سیکڑوں بکتر بند گاڑیوں اور ٹینکوں پر قبضہ کر لیا ہے، اسی طرح سیکڑوں مربع کیلو میٹر زمین کو آزاد کرایا تو ہمیں اس اعلان پر کوئی تعجب نہیں ہوا۔

تعجب نہ ہونے کے متعدد سبب ہیں۔ ایک سبب یہ ہے کہ یحیی السریع نے رای الیوم اخبار سے اس دوران رابطہ کیا تھا جب آرامکو تیل تنصیبات پر حملے ہوئے تھے اور اس وقت کہا تھا کہ ایک بڑے فوجی آپریشن کی تیاری گزشتہ تین مہینے سے چل رہی ہے، بعد میں اس کا باضابطہ اعلان کیا جائے گا۔

یہ مقالہ لکھے جانے تک سعودی عرب کے فوجی ترجمان ترکی المالکی نے جنوبی سعودی عرب کے نجران علاقے میں ہونے والی اس کاروائی پر کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن بلومبرگ جریدے میں سعودی عرب کے خفیہ ذرائع کے حوالے سے جو رپورٹ آئی ہے اور جس میں کہا گیا ہے کہ سعودی حکومت، یمن میں جزوی جنگ بندی پر غور کر رہی ہے، اس سے یہی لگتا ہے کہ سعودی عرب کی سمجھ میں یہ بات آ گئی ہے کہ شدید نقصان سے بچنے کے لئے جنگ یمن کو روک دینا ہی بہتر ہوگا کیونکہ اس جنگ سے سعودی عرب کو شدید جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔

جنگ یمن میں یمنی فوج اور رضاکار فورس مسلسل پیشرفت کر رہی ہے، خاص طور پر حالیہ کچھ مہینوں میں تو یمن کی تحریک انصار اللہ نے سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر بڑے دقیق حملے کرکے جنگ کا نقشہ ہی بدل دیا ہے۔ البقیق اور الخریص والے حملے نے تو سعودی عرب کی تیل پیداوار میں پانچ ملین بیرل کی کمی کر دی۔

یمن کی تحریک انصار اللہ نے یکطرفہ طور پر جنگ بندی کا اعلان کر دیا تھا تاکہ سعودی قیادت کو پسپائی کا موقع مل جائے اور جنگ کے مکمل خاتمے کے لئے مذاکرات کا آغاز ہو سکے۔

کہا جاتا ہے کہ متحدہ عرب امارات کو بھی اسی لئے انصار اللہ نے پسپائی کا راستہ دیا ہے تاہم سعودی عرب نے یمن کے اس قدم پر کوئی مثبت جوابی قدم نہیں اٹھایا۔

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لئے نیویارک میں تھے تو انہوں نے بتایا تھا کہ سعودی قیادت نے ان سے درخواست کی تھی کہ وہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کر دیں ۔ انہوں نے بتایا کہ اس بارے میں انہوں نے ایران سے متعدد رابطے بھی کئے ۔

یہ بات طے ہے کہ یمن کی فوج کے ترجمان یحیی السریع نے جو اطلاعات دی ہیں اس سے جنگ یمن کو روکنے اور سیاسی عمل شروع کرنے کا راستہ صاف ہوگا کیونکہ یہ بالکل واضح ہو چکا ہے کہ یمن میں سعودی عرب نے جو جنگ شروع کی ہے اسے وہ ہرگز جیت نہیں پائے گا۔

تحریک انصار اللہ نے شاندار مزاحمت کی اور جنگ کے حالات بدل دیئے۔ جب انصار اللہ نے سعودی عرب کے اندر حملے کئے اور بہت ہی حساس تنصیبات کو نشانہ بناکر سعودی عرب کی اقتصادی شہ رگ کو دبا دیا تو اب اس جنگ میں وہ مضبوط فریق بن چکا ہے۔

جنگ یمن اپنے خاتمے کے قریب پہنچ رہی ہے۔ اب یمن اور سعودی عرب کے درمیان اگر خفیہ مذاکرات شروع ہو جاتے ہیں تو ہمیں تعجب نہیں ہوگا۔ یہ مذاکرات جنگ بندی، سعودی حملوں سے یمن کو ہونے والے نقصانات کی تلافی اور مستقبل میں انصار اللہ اور سعودی عرب کے تعلقات کے تناظر کے بارے میں ہو سکتے ہیں ۔ باقی اللہ بہتر جانے!

بشکریہ

رای الیوم

عبد الباری عطوان

ٹیگس