Mar ۱۱, ۲۰۲۰ ۲۲:۲۷ Asia/Tehran
  • عراق کا اگلا وزیراعظم کون ہوگا؟ (مقالہ)

عراقی ذرائع ابلاغ اور حتی بعض سیاسی رہنماؤں کی جانب سے وزرات عظمی کے امیدواروں کے لئے دو طرح کی فہرستیں سامنے آئی ہیں۔ ایک  فہرست میں ملک کے صف اول کے سیاستدانوں کے نام شامل ہیں جبکہ دوسری میں دوسرے اور تیسرے  درجے کے سیاستدانوں کے نام دکھائی دے رہے ہیں۔

عراق کا اگلا وزیراعظم کون ہوگا؟

تلخیص:عظیم سبزواری

......

عراق سے ملنے والی خبروں کے مطابق، نئے وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے قانونی مدت  کے خاتمے سے پہلے  شیعہ جماعتوں کے درمیان صلاح و مشورے کا عمل تیز ہوگيا ہے ۔اس حوالے سے عراقی ذرائع ابلاغ اور حتی بعض سیاسی رہنماؤں کی جانب سے وزرات عظمی کے امیدواروں کے لئے  دو  طرح کی فہرستیں سامنے آئی ہیں۔ ایک  فہرست میں ملک کے صف اول کے سیاستدانوں کے نام شامل ہیں جبکہ دوسری میں دوسرے اور تیسرے  درجے کے سیاستدانوں کے نام دکھائی دے رہے ہیں۔

پہلی فہرست میں خود موجودہ کيرٹیکر وزیراعظم عادل عبدالمہدی، الفتح اتحاد کے سربراہ ہادی العامری، حکومت قانون اتحاد کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم نوری المالکی، قومی سلامتی کے مشیر اور العطا پارلیمانی گروپ کے سربراہ  فالح الفیاض اور النصر اتحاد کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم حیدرالعبادی کے نام شامل ہیں۔

 دوسری فہرست میں الفتح اتحاد کے احمد الاسدی، محکمہ انٹیلی جینس اینڈ سیکورٹی کے سربراہ مصطفی الکاظمی، بصرے کے گورنر اسد العیدانی، سابق وزیر تجارت محمد شیاع السودانی، النصر پارٹی کے رکن اور سابق گورنر نجف عدنان الزرفی، پارلیمنٹ کی اسٹنڈنگ کمیٹی برائے مالیات کے سربراہ ہیثم الجبوری، الفتح  سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر داخلہ قاسم الاعرجی، صدر عراق  کے مشیر علی الشکری اور حمکت پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر کھیل عبد الحسین عبطان  کے نام دکھائي دیتے ہیں۔  

 موجودہ وزیر اعلی تعلیم اور حکومت قانون اتحاد کے رکن قصی السہیل اور سرمایہ کاری بورڈ کے سابق چیرمین سامی الاعرجی کے نام دونوں میں سے کسی بھی فہرست میں دکھائی نہیں دیتے تاہم  سیاسی ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارت عظمی کے لیے ہونے والے صلاح و مشورے میں ان افراد کے ناموں پر بھی غور کیا گيا ہے۔

عراق کے صحافتی  حلقوں میں قیاس آرئیاں یہ ہیں کہ پہلی فہرست میں شامل لوگوں میں کسی بھی شخص کے وزیر اعظم بننے کا چانس نہ ہونے کے برابر ہے۔

نیوز ایجنسی ارنا کے مطابق سینئر عراقی تجزیہ نگار قصی المحبوبہ نے اپنے تازہ ٹوئٹ میں کہا ہے کہ پہلی فہرست والے اگر کعبے کے غلاف  کو پکڑ بھی قسم اٹھائيں گے تب بھی ان کے  وزیر اعظم بننے کا چانس دکھائی نہیں دیتا ۔

سیاسی حلقوں کی جانب سے بھی  یہ قیاس آرائیاں کی جارہی ہے کہ عراق کا  نیا وزیر اعظم، قوی امکان یہی ہے کہ  سیاستدانوں کے دوسرے گروپ سے ہوگا تاہم اس بارے میں بھی سیاسی دھڑوں کے درمیان اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔

کہا  جارہا ہے کہ وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے شیعہ پارٹیوں پر مشتمل سات رکنی کمیٹی نے   فیصلہ کیا ہے کہ ملک کا آئندہ وزیر اعظم ایک سال کے لیے ہوگا اور اس کا مینڈیٹ ملک میں قبل از وقت پارلیمانی انتخابات کا راستہ ہموار کرنے تک محدود ہوگا۔ یہ سات رکنی کمیٹی، مقتدی صدر کی سرکردگی میں قائم سائرون اتحاد، الفتح، دولت قانون، النصر گروپ،  حکمت پارٹی،  العطا پارٹی اور فضیلت پارٹی پر  مشتمل  ہے۔

 عراقی  ذرائع ابلاغ نے رکن پارلیمنٹ اور الفتح پارٹی کے رکن نعیم العبودی  کے حوالے سے بتایا ہے کہ شیعہ سیاسی جماعتوں اور پارلیمانی دھڑوں کے درمیان  اس بارے میں اتفاق  ہوگيا ہے کہ ملک کا آئندہ  وزیر اعظم کن خصوصیات کا مالک ہونا چاہیے تاہم  یہ شخص کون ہوگا اس بارے میں ابھی کوئي فیصلہ نہیں ہوا۔

ادھر عراقی سرکاری خبر رساں ایجنسی میں مقتدی صدر کی قیادت والے سائرون گروپ کے رکن پارلیمنٹ علا الربیعی کا بیان سامنے آيا ہے جس میں انہوں نے  کہا ہے کہ سات رکنی کمیٹی نے  وزیر اعظم کے انتخاب کا طریقہ کار طے  کرلیا ہے  اور بقول ان کے پارلیمنٹ میں موجود تمام شیعہ جماعتیں وزرات عظمی کےعہدے کے لیے اپنے اپنے مطلوبہ امیدواروں کے نام کمیٹی کو پیش کریں گی ۔ جن میں سے پہلے مرحلے میں پانچ کا انتخاب اور اس کے بعد اتفاق رائے سے ايک شخص کا انتخاب عمل میں آئے گا اور اسی کا نام صدر کو پیش کردیا جائے گا۔

دوسری جانب النصر پارٹی کے رکن فلاح عبد الکریم  نے اپنے بیان میں  کہا ہے کہ شیعہ پارلیمانی  جماعتوں کے درمیان  وزارت عظمی کے لیے  جن لوگوں کے ناموں پر غور کیا گيا ہے ان میں علی الشکری، عدنان الزرفی اور سامی الاعرجی  شامل ہیں۔ تاہم  بعض دوسرے سیاسی رہنماؤں نے ان کی رائے سے اختلاف کیا ہے۔

مثال کے طور پر حکمت پارٹی کے رکن  پارلیمنٹ حسن فدعم  نے اپنی ذاتی ویب سائٹ پر ایک سروے کرایا ہے جس میں مصطفی الکاظمی  کو  علی الشکری اور قصی السہیل کے مقابلے میں زیادہ مقبولیت حاصل رہی ہے۔

عراق کے  اہلسنت دھڑوں کے اتحاد تحالف الاصلاح و الاعمار کے سربراہ حیدر الملا نے بھی خیال ظاہر کیا ہے کہ وزارت عظمی کے دیگر امیدواروں کے مقابلے میں مصطفی الکاظمی کے چانس زیادہ ہیں۔

تمامتر قیاس آرائیوں کے درمیان یہ خیال بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ موجودہ کیر ٹیکر وزیراعظم عادل عبد المہدی بدستور وزارت عظمی کے لیے طاقتور امیدوار ہیں۔ عراقی وزیر اعظم کے سابق معاون خصوصی بہا الاعرجی نے بھی اپنے ایک ٹويٹ میں پیش گوئي کی ہے کہ عادل عبد المہدی اپنے عہدے پر باقی رہ سکتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ شیعہ جماعتوں کا کسی نئے شخص کے نام پر متفق ہونا دشوار ہے لہذا قوی امکان ہے کہ عادل عبد المہدی اپنے عہدے پر کام کرتے رہیں گے۔

اس خیال کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ کرد جماعتیں بھی عادل عبدال مہدی کے بارے میں مثبت رائے رکھتی ہیں۔ عراق کی کردستان پیٹریاٹک یونین نے اعلان کیا ہے کہ اگر عادل عبد المہدی کو دوبارہ وزیر اعظم بنایا جاتا ہے ان کی جماعت کو ان کے ساتھ کام کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہوگی۔

بہرحال عراق میں نئے وزیراعظم کے انتخاب کی قانونی مہلت میں  ختم ہونے میں محض چند روز باقی ہیں اور آئندہ ہفتے کے وسط تک صدر برھم صالح  کو ملک کے نئے وزیر اعظم کے نام کا اعلان کرنا ہوگا۔ عراق کا اگلا وزیر اعظم کون ہوگا؟ اس کے لیے ہمیں ابھی کچھ اور انتظار کرنا پڑے گا۔

 

 

 

 

 

 

ٹیگس