ناپاک صیہونی منصوبے عرب ممالک کے اختلافات کا نتیجہ ہیں: حماس
فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے غاصب صیہونی حکومت کے مقابلے میں استقامت کے لئے جامع قومی منصوبے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
فارس خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے رکن موسی ابو مرزوق نے کہا کہ تحریک حماس ایک ایسا جامع قومی منصوبہ تیار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس میں غاصب صیہونی حکومت کے مقابلے میں استقامت سر فہرست قرار پائے۔ انہوں نے کہا ہے کہ فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس حقیقی قومی اتحاد کے ذریعے ایک بار پھر استقامت کے عمل کا اعتبار بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ سیاسی فیصلوں میں تمام فلسطینی گروہ شامل ہوں۔
موسی ابو مرزوق نے کہا کہ اوسلو معاہدے کی فلسطینیوں کے درمیان کوئی حیثیت نہیں ہے اور فلسطینی انتظامیہ کو غاصب صیہونی حکومت کے ساتھ ہر طرح کے مذاکرات کو مسترد کرنا ہو گا۔
فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے رکن نے غرب اردن کے علاقوں کو مقبوضہ علاقوں میں ضم کرنے کے غاصب صیہونی حکومت کے شرمناک منصوبے پر بھی خبردار کیا۔ انہوں نے کہا کہ غاصب صیہونی حکومت کا یہ ناپاک منصوبہ صرف اور صرف فلسطینی علاقوں تک محدود نہیں رہے گا اور اس وقت فلسطینی امنگوں کو پورا کرنے کے لئے سب کو ہر طرح سے بھرپور مدد و حمایت کرنے کی ضرورت ہے۔
ابو مرزوق نے کہا کہ غرب اردن کے علاقوں کو غصب کرنے اور اس سے قبل سینچری ڈیل سے موسوم منصوبہ، عرب ملکوں میں اختلافات کا نتیجہ ہے اور عرب ملکوں میں اختلاف و تفرقے سے ہی امریکہ و اسرائیل کو اس بات کا حوصلہ ملا کہ وہ سینچری ڈیل جیسے شرمناک منصوبے سے پردہ ہٹائیں۔
دریں اثنا غرب اردن کے علاقوں کو قبضائے جانے کے خلاف ہزاروں فلسطینیوں نے الخلیل میں مظاہرہ کیا۔ ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق فلسطنی مظاہرین نے غاصب صیہونی حکومت کے اس منصوبے کے خلاف نعرے لگائے اور ناپاک منصوبے کی شدید مذمت کی۔
غاصب صیہونی حکومت کے با وردی دہشتگردوں نے بھی فلسطینیوں کے مظاہرے کی سرکوبی کے لئے فائرنگ کرنے کے علاوہ صوتی بموں اور آنسو گیس کے گولوں کا بھی استعمال کیا۔
واضح رہے کہ غاصب صیہونی حکومت کے وزیراعظم نتن یاہو غرب اردن کے علاقوں کو مقبوضہ علاقوں میں شامل کرنے کے اپنے شرمناک منصوبے کو گذشتہ بدھ سے عملی جامہ پہنانے کی کوشش کر رہے تھے تاہم عالمی سطح پر کی جانے والی شدید مخالفت کے بعد وہ اس شرمناک منصوبے پرعمل درآمد کو التوا میں ڈالنے پر مجبور ہو گئے۔