بحرین پر سعودی لشکرکشی کو ایک عشرہ مکمل
بحرین پر سعودی عرب لشکر کشی کو ایک عشرہ مکمل ہو گیا ہے، سعودی عرب نے چودہ مارچ دوہزار گیارہ کو آمریت کے خلاف عوامی تحریک کو کچلنے کے لیے بحرین میں اپنی فوجیں اتاری تھیں سوال یہ ہے کہ سعودی عرب کی اس لشکر کشی کے اندرونی اور علاقائی سطح پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
سعودی عرب کی لشکر کشی نے خود سعودی عرب اور بحرین دونوں کو متاثر کیا ہے اور اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ بحرین پر سعودی لشکر کشی نے سعودیوں کی اندرونی مشکلات میں اضافہ کیا ہے ۔
ریاض حکومت کو اپنے مادی وسائل کا ایک حصہ بحرین کی شاہی حکومت پر خرچ کرنا پڑا رہا ہے۔جبکہ پچھلے ایک عشرے کے دوران سعودی عرب کی اقتصادی مشکلات میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔
اقتصادی جائزوں کے مطابق نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ سعودی حکام بجٹ خسارے پر قابو پانے کے لیے مراعات میں کمی اور ٹیکسوں میں اضافے پر مجبور ہوگئے جس پر عوام میں شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے۔
علاوہ ازیں اس اقدام نے آل سعود خاندان کے خلاف ملک کی شیعہ آبادی میں پائی جانے والی نفرت میں مزید اضافہ کیا ہے۔ بحرین اور سعودی عرب کے شیعہ مسلمانوں کے درمیان قریبی رشتے پائے جاتے ہیں یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ بحرین میں پچھلے ایک عشرے سے جاری سعودی فوجی مداخلت فرقہ وارانہ محرکات کی حامل رہی ہے اور اس کا مقصد اکثریتی شیعہ آبادی کو دبانا رہا ہے- سعودی فوجی مداخلت نے خود بحرین کے اندر بھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں اور حکمران آل خلیفہ خاندان اور بحرین کے عوام کے درمیان دوریوں میں شدید اضافہ کیا ہے۔
بحرینی عوام کی اکثریت کا خیال ہے کہ ملک کی شاہی حکومت نے اقتدار اعلی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر ملکی فوجیوں کو بلاکر دراصل سعودی عرب کو غاصبانہ قبضے کا موقع فراہم کیا ہے۔ایک اور اہم معاملہ یہ ہے کہ سعودی لشکر کشی نے بحرین میں عدم استحکام کو مزید طول دیا ہے کیونکہ اگر آل خلیفہ حکومت اور بحرین کے عوام ہی ایک دوسرے کے فریق ہوتے تو پھر ملک میں جاری بحران سیاسی بنیادوں پر حل کرنے کا امکان زیادہ ہوتا۔
سعودی عرب کی لشکر کشی نے نہ صرف یہ کہ بحرین کے عوام اور شاہی حکومت کے درمیان محاذ آرائی کو مزید ہوا دی ہے بلکہ آل خلیفہ خاندان کی عوامی مقبولیت اور حکمرانی کے جواز پر بھی ٹھوس سوال کھڑے کردیئے ہیں۔
علاقائی سطح پر بھی سعودی لشکرکشی کے اثرات کا پوری طرح مشاہدہ کیا جارہا ہے اور اس کے نتیجے میں عرب ملکوں کے اندرونی معاملات میں زیادہ سے زیادہ مداخلت کا راستہ ہموار ہوا ہے۔
بحرین میں سعودی لشکرکشی نے سعودیوں کی توقعات میں بھی اضافہ کیا ہے اور وہ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ خلیج فارس تعاون کونسل کے دیگر ممالک کو ریاض حکومت کی پالیسیوں پرعمل کرنا چاہیے۔
بہرحال بحرین سعودی لشکر کشی کو یمن پر وحشیانہ جارحیت کے آغاز کا پیش خیمہ قرار دیا جاسکتا ہے، کیونکہ آل سعودی خاندان کا خیال تھا کہ جس طرح بحرین پر لشکر کشی کے نتیجے میں آل خلیفہ خاندان کے اقتدار کو بچالیا گیا ہے اسی طرح یمن پر حملہ کرکے عبدالربہ منصور ہادی کی کٹ پتلی حکومت کو صنعا میں بحال اور انصار اللہ اور اس کے حامیوں کو دیوار سے لگایا جاسکتا ہے۔
البتہ سعودیوں کے انداز کی اس غلطی کے نتیجے میں چھے سال سے یمنیوں پر تباہ کن جنگ مسلط ہے۔ایک اور بات یہ ہے کہ آل سعود نے بحرین اور اسرائیل کے درمیان سمجھوتے میں اہم کردار ادا کیا ہے، اسرائیلی چینل تیرہ کے لیے کام کرنے والے صہیونی تجزیہ نگار آری شابت کا کہنا ہے کہ کیونکہ منامہ حکومت پوری طرح سے ریاض کے کنٹرول میں ہے اور خود مختار نہیں، اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ بحرین ریاض کی موافقت کے بغیر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے ایک قدم بھی آگے بڑھا سکے۔