اشرف غنی نے عام لام بندی کی اپیل کی، طالبان:اشرف غنی حکومت کا وقت ختم ہوا
پارلیمنٹ کے ہنگامی اجلاس کے دوران افغانستان کے صدر اشرف غنی کی جانب سے طالبان کے مقابلے کے لیے عام لام بندی اپیل پر سرکاری اور غیر سرکاری عہدیداروں اور طالبان کی جانب سے ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔
افغانستان کے سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ طالبان کے خلاف عام لام بندی کے اعلان اور عوامی رضاکاروں کی شمولیت کے نتیجے میں جنگ کا توازن سرکاری افواج کے حق میں تبدیل ہو جائے گا۔
سرکردہ سیاسی اور دفاعی مبصر جنرل جاوید کوہستانی نے پارلیمنٹ کے ہنگامی اجلاس کے بعد، اعلی قومی مصالحتی کونسل اور قومی سلامتی کونسل کو تحلیل اور تمام توانائیاں اور وسائل طالبان کے مقابلے کے لیے مہیا کیے جانے پر زور دیا ہے۔
جنرل کوہستانی نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ ملک کی سرحدوں کے دفاع کے لیے نئی سیکورٹی بیلٹ بنانے کی غرض سے پاکستان پر دباؤ ڈالے۔ سرکردہ افغان مصنف کاوہ جبران کا کہنا ہے کہ صدر اشرف غنی کی جانب سے طالبان کے خلاف جنگ کا اعلان اگرچہ دیر سے کیا گیا تاہم یہ انتہائی کارگر واقع ہوگا۔
افغانستان کی نیشنل سیکورٹی ایجنسی کے سابق ڈائریکٹر رحمت اللہ نبیل نے پارلیمنٹ کے اجلاس کے بعد کہا ہے کہ آج سے قومی مصالحتی کونسل کا باضابطہ طور پر خاتمہ ہو گیا ہے۔
دوسری جانب طالبان نے افغان صدر کی اپیل پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اشرف غنی کی حکومت کے دن گنے جا چـکے ہیں اور عام لام بندی کی اپیل کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ اعلان جنگ اور غلط اطلاعات کا استعمال بھی اشرف غنی کی حکومت کو طویل نہیں کر سکے گا اب ان کی حکومت کا وقت ختم ہوگیا۔
یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ہرات، لشکرگاہ اور قندھار جیسے شہروں میں پچھلے چند روز سے جاری جھڑپوں میں ساڑھے تیس سو سے زیادہ عام شہری ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے نمائندہ دفتر کے مطابق صوبہ ہلمند اور قندھار کے مرکزی شہروں میں ہونے والی جھڑپوں کے درمیان پندرہ عام شہری ہلاک اور ایک سو ستائیس زخمی ہوئے ہیں۔ ڈاکٹروں کی عالمی تنظیم ، ڈاکٹرز بیانڈ دی بارڈز نے بھی کہا ہے کہ صوبہ ہلمند کے مرکزی شہر لشکرگاہ میں عام زندگی مفلوج ہو کے رہ گئی ہے اور سلامتی کے مسائل کے پیش نظر اس تظیم کے کارکن اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے قاصر ہیں۔
افغانستان سے موصولہ خبروں میں کہا گیا ہے کہ ہرات، قندھار اور لشکرگاہ جیسے اہم شہروں میں افغان فوج اور طالبان کے درمیان جھڑپیں پوری شدت کے ساتھ جاری ہیں اور ہزاروں شہری اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔