افغانستان مین 90 فیصد سے زائد سرکاری عمارتوں پر طالبان کا قبضہ
افغانستان میں نوے فیصد سے زائد سرکاری عمارتوں پر طالبان گروہ کا قبضہ ہو گیا ہے، جبکہ سابق افغان صدر اشرف غنی کے بارے میں متضاد خبریں موصول ہو رہی ہیں کہ وہ اس وقت کس ملک میں ہیں۔
طالبان گروہ کے ایک عہدیدار نے پیر کے روز اعلان کیا ہے کہ افغانستان میں نوے فیصد سے زائد سرکاری عمارتیں طالبان کے کنٹرول میں ہیں اور طالبان گروہ کے افراد کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ ان عمارتوں کو کسی بھی قسم کا کوئی نقصان نہ پہنچائیں۔
طالبان گروہ کے مذکورہ عہدیدار کا کہنا ہے کہ کابل شہر کی تمام چیک پوسٹیں بھی اس وقت طالبان کے کنٹرول میں ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق تمام وہ افراد جو کابل ایرپورٹ پر جمع ہیں وہ اپنے گھروں کو واپس جا سکتے ہیں۔ طالبان کے افراد، جو اتوار کے روز افغانستان کے دارالحکومت کابل میں داخل ہوئے ہیں، شہر کے مختلف علاقوں میں تعینات ہو گئے ہیں اور کابل کے مختلف علاقوں میں گشت لگا رہے ہیں۔
اسی اثنا میں کابل نیوز ٹی وی چینل نے رپورٹ دی ہے کہ افغانستان کے صدر اشرف غنی افغانستان سے عمان پہنچے ہیں۔ افغان ٹی وی چینل کی رپورٹ کے مطابق اشرف غنی اتوار کو کابل پر طالبان کا قبضہ ہوجانے کے بعد کابل سے عمان پہنچے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق اشرف غنی کی اہلیہ، دو اور افراد کے ساتھ پہلے کابل سے تاجیکستان کے لئے روانہ ہوئیں اور پھر عمان پہنچ گئیں اور اس وقت وہ عمان میں ہیں۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ الجزیرہ ٹی وی نے اشرف غنی کے ذاتی محافظ کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ اشرف غنی اس وقت ازبکستان میں ہیں۔
دوسری جانب افغان عوام کا کابل ایرپورٹ پر ہجوم لگا ہوا ہے جو ملک سے باہر جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایران پریس کی رپورٹ کے مطابق افغان عوام کی ایک بڑی تعداد پیر کی صبح کابل کے ایرپورٹ پہنچ گئی جو اپنا وطن ترک کر کے ملک سے باہر جانے کی کوشش کر رہی ہے اور اسی بنا پر اس وقت بھی کابل ایرپورٹ پر لوگوں کا ایک ہجوم لگا ہوا ہے، جبکہ کمرشل پروازوں کو بند کردیا گیا ہے۔
بعض پریس ذرائع نے رپورٹ دی ہے کہ کابل سے تمام غیر ملکی پروازوں کو جانے سے روک دیا گیا ہے۔
کابل ایر پورٹ پر مسافر بردار طیاروں کی شدید کمی ہے اور اعلان کیا گیا ہے کہ موجودہ پروازوں سے غیر ملکی شہریوں کو منتقل کئے جانے کو ترجیح دی گئی ہے۔ افغان دارالحکومت کابل میں لوگوں میں انجانا سا خوف پایا جا رہا ہے۔ رات کے وقت کابل اور اس کے مضافات سے فائرنگ کی بھی آوازیں سنی جاتی رہیں۔