عراق کے حالات نازک، ملک بھر میں رفت و آمد پر پابندی +ویڈیو
ایسے حالات کہ جب عراق میں گزشتہ روز مقتدیٰ صدر کے حامیوں کے مظاہرے کے دوران ہونے والی فائرنگ میں دسیوں افراد کے ہلاک و زخمی ہونے کی خبر ہے، عراق کے وزیر اعظم نے سکیورٹی فورسز کو معترض افراد اور مظاہرین کی جان کے تحفظ کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔
گزشتہ روز عراق کے دارالحکومت بغداد کے گرین زون کے اندر سیاسی رہنما مقتدیٰ صدر کے حامیوں کا مظاہرہ ہوا جو بعد میں سکیورٹی فورسز کے ساتھ مظاہرین کی جھڑپوں میں تبدیل ہو گیا۔ مظاہروں کا یہ سلسلہ اُس وقت شروع ہوا کہ جب صدر سیاسی دھڑے کے سربراہ مقتدیٰ صدر نے ایک بیان جاری کر کے یہ اعلان کیا کہ انہوں نے میدان سیاست کو ہمیشہ کے لئے خیرباد کہہ دیا ہے۔
مقتدیٰ صد کے اس اعلان کے بعد عراق کے مختلف شہروں منجملہ بغداد میں انکے حامی بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے اور اسکے بعد انہوں نے اہم اور حساس سرکاری مراکز پر دھاوا بول کر انہیں اپنے اختیار میں لے لیا جس کے بعد سکیورٹی فورسز کے ساتھ انکی شدید جھڑپیں ہوئیں۔ مظاہرین میں بہت سوں کو اسلحوں کے ساتھ دیکھا گیا۔
ایسے حالات میں عراق کے وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی نے سکیورٹی فورسز کو مظاہرین کی جان کے تحفظ کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اس سلسلے میں ضابطوں سے سرپیچی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ مصطفیٰ الکاظمی نے کہا کہ گزشتہ روز گرین زور کے اندر ہوئی فائرنگ کے سلسلے میں تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا جس کے تحت فائرنگ کے ذمہ دار افراد کا جلد پتہ لگا کر انہیں سزا دی جائے گی۔ساتھ ہی انہوں نے الفتح اور صدر الائنس کے سربراہوں ہادی العامری اور مقتدیٰ صدر کی جانب سے انتہاپسندی سے پرہیز کی اپیل پر ان کی قدردانی کی۔
العامری نے پیر کی شب عراقی پارلیمان میں تمام فریقوں سے اپیل کی کہ وہ اپنا اسلحہ زمین پر رکھ دیں۔ اُدھر پارلیمنٹ میں صدر دھڑے کے سربراہ حسن العذاری نے خبر دی ہے کہ مقتدیٰ الصدر نے انتہا پسندی اور اسلحے کے استعمال کے خاتمے تک بھوک ہڑتال کا فیصلہ کیا ہے۔ مقتدیٰ صدر کا کہنا ہے کہ بدعنوانوں کے خاتمے کے مقصد سے کی جانے والی جد وجہد انتہا پسندی کا جواز فراہم نہیں کرتی۔
عراق کی تازہ ترین صورتحال پر ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان نے اپنے عراقی ہم منصب سے گفتگو میں عراق کے تمام سیاسی اختلافات کو آپسی اتحاد اور قانونی اداروں کے احترام کے ساتھ قانون کے دائرے میں حل کرنے پر زور دیا۔ اس وقت عراقی وزیر خارجہ تہران کے دورے پر ہیں اور انہوں نے صدر ایران سید ابراہیم رئیسی اور اپنے ایرانی ہم منصب امیر عبد اللہیان سے ملاقات اور گفتگو کی ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز گرین زون میں حکومتی مراکز پر حملے کے بعد صدر دھڑے کے حامیوں نے عراقی صدارتی محل پر بھی حملہ کر دیا تھا۔ صابرین نیوز ٹیلیگرام چینل نے ویڈیو کلپس شائع کرکے اطلاع دی کہ صدر دھڑے سے وابستہ "سرایا السلام" کے عناصر صدارتی محل پر حملہ کرنے کے بعد اس میں داخل ہوگئے تاہم بعد میں سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو صدارتی محل سے باہر نکال کر اُس کا مکمل کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق چند گھنٹوں کے بعد صدر دھڑے کے حامی بغداد کے گرین زون سے باہر نکل گئے اور علاقے کا کنٹرول سکیورٹی فورسز کے ہاتھ میں آگیا۔
مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں اب تک 25 افراد کے مارے جانے اور 350 کے زخمی ہونے کی خبر ہے جن میں کچھ سکیورٹی اہلکار بھی بتائے جاتے ہیں۔
در ایں اثنا الصدر پارٹی کی جانب سے مظاہروں اور عوامی احتجاجات کو منظم کرنے اور ان کی نگرانی کرنے والی کمیٹی کو بھی ختم کردیا گیا ہے۔
عراق کی سکیورٹی فورسز نے حالات کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے پورے ملک میں تا اطلاعِ ثانی ہر قسم کی رفت و آمد پر پابندی عائد کر دی ہے۔ یہ پابندی پہلے صرف بغداد میں نافذ کی گئی تھی جس کا دائرہ بعد میں بڑھا دیا گیا۔
گزشتہ شب عراقی وزیر اعظم کی سربراہی میں اعلیٰ سکیورٹی عہدے داروں کا ایک ہنگامی اجلاس ہوا جس میں بغداد میں پیش آنے والے اتفاقات منجملہ حکومتی مراکز میں مظاہرین کے داخلے کا جائزہ لیا گیا۔ اس اجلاس میں ایک طرف وزیر اعظم نے حکومتی مراکز کو مظاہرین کی دست درازی سے محفوظ رکھنے کے لئے لازمی فرامین جاری کئے اور دوسری جانب سکیورٹی فورسز سے مطالبہ کیا کہ وہ بغداد کے گرین زون سے بارہ نکل جائیں۔ انہوں نے سکیورٹی فورسز پر زور دیا کہ وہ حالات کو پر امن بنائے رکھنے کی بھرپور کوشش کریں۔
عراقی صدر برہم صالح نے بھی بغداد میں پیش آنے والے واقعات پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے قانون کے دائرے میں اپنے مطالبات کو لے کر مظاہرہ اور اعتراض کرنے کو شہریوں کے بنیادی حقوق میں شمار کیا تاہم انہوں نے واضح کیا کہ اپنے قانونی مطالبات کو منوانے کے لئے حکومتی اداروں اور مراکز پر دھاوا بولنا اور انہیں تعطل کا شکار کرنا ایک خطرناک اقدام ہے اور اس سے ملک اور عوام کے مفادات کو نقصان پہنچے گا۔
عراق کے گزشتہ روز کے حالات کا اثر زائرین کی رفت و آمد پر بھی پڑا ہے۔ ایران سے بغداد و نجف کے مابین انجام پانے والی پروازیں بھی وقتی طور سے روک دی گئی ہیں جبکہ زمینی راستوں سے عراق کا سفر کرنے والے ایرانی و غیر ایرانی زائرین کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ ایران کے حکام نے اپنے شہریوں اور ایران کے راستے سے عراق جانے والے غیر ملکی زائرین سے اپیل کی ہے کہ وہ فی الحال عراق کا سفر کرنے سے پرہیز کریں۔
ماہرین نے عراق میں گزشتہ روز رونما ہونے والے اتفاقات کو مشکوک قرار دیتے ہوئے اُن میں غیر ملکی مداخلت کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ بعض ذرائع نے بغداد اور بعض دیگر علاقوں میں مشکوک اور نامعلوم افراد کی جانب سے فائرنگ اور حتیٰ آر پی جی جیسے اسلحوں کے استعمال کی بھی خبر دی ہے۔