شمالی شام پر ترک فوج کے شدید حملے
ترک افواج نے شام کے شمالی علاقوں پر شدید فضائی حملے کئے اور صوبہ حلب پر گولہ باری کی۔
سحرنیوز/عالم اسلام: المیادین ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق، ترک فوج کے اس حملے میں صوبہ حلب کے شیخ عیسی قصبے اور تل رفعت شہر کے مضافات کو بھاری گولہ باری کا نشانہ بنایا گیا۔
رپورٹ کے مطابق، تل رفعت پر ترکی کے فضائی اور توپخانوں کے حملوں کو انقرہ کے فوجیوں کا اب تک کا سب سے شدید حملہ قرار دیا گیا ہے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ گذشتہ روز بھی ترکیہ کے فوجیوں اور ان سے وابستہ ملیشیا نے شام کے شمال مغربی علاقے الحسکہ پر گولہ باری کی تھی۔ ان حملوں میں تل اللبن اور الکوزلیہ علاقوں کو نشانہ بنایا گیا تھا جس میں بنیادی تنصیبات کے علاوہ رہائشی مکانات کو بھی بھاری نقصان پہنچا تھا۔
ترک فوج کے حملے بیس نومبر سے شروع ہوئے تھے جس میں شدت بھی آتی جا رہی ہے۔
ترک صدر رجب طیب اردوغان نے شام پر زمینی حملوں کا عندیہ بھی دے دیا ہے۔
دریں اثنا ترکیہ کے وزیر دفاع حلوصی آکار نے دعوی کیا ہے کہ عراق اور شام کے شمالی حصوں پر حملے، حق دفاع کے تحت کئے گئے ہیں۔
انہوں نے ایک جانب، شام اور عراق کے شمالی حصوں میں کارروائیوں کو دہشت گردی کے خلاف آپریشن قرار دیا تو دوسری جانب پارلیمانی ارکان کے سامنے دعوی کیا کہ انقرہ ہمسایہ ممالک کی ارضی سالمیت کا احترام کرتا ہے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ بہت سے ماہرین اور ترک حکومت کے اعلی عہدے دار پی کے کے اور برسر اقتدار انصاف اور ترقی پارٹی کے مخالف گروہ فتح اللہ گولن کے حامیوں کو بھی دہشت گرد اور علیحدگی پسند کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
پارلیمان میں تقریر کے دوران، ترک وزیر دفاع نے شام پر جارحیت کی توجیہ پیش کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ یہ حملے اقوام متحدہ کی منشور کی اکیاونویں شق کے مطابق ہیں جس میں اپنے حقوق اور مفادات کے دفاع کے لئے، اقوام متحدہ کے ارکان کو حملے کا حق دیا گیا ہے۔
ترک وزیر دفاع نے بھی بتایا کہ سن دو ہزار بائیس کی ابتدا سے اب تک پی کے کے گروہ کے تقریبا چار ہزار جنگجوؤں کو ہلاک کیا گیا ہے۔