شام میں بشار اسد کے خاتمے سے اسرائیل کو کس حد تک فائدہ ہوا؟
شام میں تازہ تبدیلیوں اور بشار اسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد، اس بڑی تبدیلی سے فائدہ اور نقصانات اٹھانے والے فریقوں کے بارے میں گفتگو شروع ہو گئ ہے اور مختلف تجزیہ نگار اس سلسلے میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہيں۔
سحرنیوز/عالم اسلام: اسرائيلی امور کے ماہر تجزیہ نگار منصور براتی کا خیال ہے کہ اس سے اسرائیل کو قلیل مدتی فائدہ حاصل ہوگا لیکن طویل مدت میں حالات کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
اسرائیلی امور کے ماہر منصور براتی نے صیہونی حکومت کے لیے شام میں سیاسی اور سیکورٹی حالات کے نتائج کا جائزہ لیا جو ایران کی تسنیم نیوز ایجنسی میں شائع ہوا ہے۔
منصور براتی کا خیال ہے کہ اسرائیل کو اس تبدیلی کی اطلاع امریکا اور ترکی کے ذریعے پہلے ہی دی جا چکی تھی اور اس نے اس بارے میں خاموشی اختیار کی، کیونکہ اس سے جو قلیل مدتی فائدہ اسے حاصل ہوتا وہ بہت بڑا اور اہم تھا۔
لیکن دوسری طرف اس سوال کے جواب میں کہ آیا یہ عمل مکمل طور پر اسرائیل کے حق میں ہے یا نہیں، ہمیں قلیل مدتی اور طویل مدتی مفادات کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھنا ہوگا۔
ان کے مطابق جو کچھ شام میں ہوا ہے کے قلیل مدتی اثرات اسرائيل کے مفادات سے ہم آہنگ ہیں۔ اس کا تجزیہ دو طرح سے کیا جا سکتا ہے، پہلا یہ کہ شام میں ’طاقت کا خلا‘براہ راست اسرائیل کے لیے فائدہ مند ہے اور یہ غاصب حکومت شام میں سیاسی بحران اور اندرونی کشمکش کے حالات میں مقبوضہ جولان کے مزید علاقوں پر قبضہ کر سکتی ہے اور اس کے لئے وہ شام میں مسلح گروہوں کو روکنے کی کوشش کا بہانہ پیش کر سکتی ہے۔
دوسری جانب بشار اسد کی حکومت کا خاتمہ جو مزاحمتی فرنٹ سے قریب تھی، ایران سے عراق و شام اور وہاں سے لبنان تک ہتھیاروں کی کا راستہ بند ہو جائے گا وہ بھی ایسے حالات میں کہ جب حزب اللہ لبنان کو تازہ دم ہونے اور اپنی قوت مجتمع کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
لیکن دوسری طرف طویل مدت میں یہ تبدیلی صیہونیوں کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ سب سے پہلے، اگر اس ملک میں مسلح اپوزیشن گروپوں کے ذریعے ایک متحدہ حکومت قائم کی جاتی ہے، تو ہم دیکھیں گے کہ نئی حکومت میں موجود اسرائیل مخالف دھڑا ، جس کی جڑیں اخوان المسلین سے ملتی ہيں ، آہستہ آہستہ سرگرم ہو جائے گا اور یہ دھڑا اسرائیل کے خلاف سخت موقف اختیار کر لے گا۔
اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر شام یمں نئی حکومت سنی عرب ملکوں کے ساتھ مل کر ایک نیا فرنٹ تیار کرتی ہے اورمشرقی بحیرہ روم میں ترکی کے ساتھ تعاون میں اضافہ کرتی ہے تو پھر اس علاقے میں ترکی کا اثر و رسوخ کافی حد تک بڑھ جائے گا اور اس سے بھی اسرائيل کے مفادات کو سخت خطرات لاحق ہو جائيں گے۔