جان بولٹن کے نظریات
جان بولٹن نے دو ہزار نو میں کہا تھا کہ آخرکار وہ واحد حکمت عملی جس کے ذریعے ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکا جا سکتا ہے تہران میں حکمفرما رژیم کی تبدیلی ہے
"جان بولٹن" جو حتی امریکہ کی رائٹسٹ اور نیو کنزرویٹو محافل میں بھی "شدت پسند" جانے جاتے ہیں 9 اپریل سے امریکی صدر کے نئے قومی سلامتی کے مشیر بننے والے ہیں اور اس طرح وہ امریکہ کی قومی سلامتی ٹیم کی سربراہی شروع کرنے والے ہیں۔
وہ اس سے پہلے جرج بش جونیئر کی صدارتی مدت میں حکومت کے اعلی سطحی سیاسی و سکیورٹی عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ اس دور میں ان پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے عراق پر امریکہ کے فوجی حملے سے پہلے امریکی انٹیلی جنس رپورٹس میں ہیر پھیر کی تھی۔
اسی طرح ان کے بارے میں یہ بھی مشہور تھا کہ اپنے ماتحت افراد کے ساتھ ان کا رویہ انتہائی ناپسندیدہ تھا۔ ذیل میں گذشتہ چند برس کے دوران اہم عالمی ایشوز کے بارے میں جان بولٹن کا موقف بیان کیا گیا ہے جس سے مستقبل میں ان کی ممکنہ پالیسیوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے:
1994ء: جان بولٹن اقوام متحدہ کے بارے میں کہتے ہیں: "اقوام متحدہ نہیں ہے بلکہ ایک عالمی معاشرہ ہے جسے کبھی کبھار دنیا میں باقی بچ جانے والی واحد طاقت یعنی امریکہ کے ذریعے چلایا جا سکتا ہے، وہ بھی اس وقت جب ہمارے مفادات سے مطابقت رکھتا ہو اور دوسروں کو چلا سکیں۔"
1994ء: اقوام متحدہ کی بیوروکریسی کے بارے میں کہتا ہے: "نیویارک میں اقوام متحدہ کے سیکریٹریٹ کی عمارت 38 منزلہ ہے۔ اگر آپ آج 10 منازل ختم کر دیں تو بھی اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اقوام متحدہ ناکارہ ترین اداروں میں سے ایک ہے ۔ ۔ ۔ ۔ یونیسکو اس سے بھی بدتر ہے۔"
2000ء: اقوام متحدہ میں اصلاحات کے بارے میں کہتے ہیں: "اگر میں آج سلامتی کونسل تشکیل دیتا تو اس میں صرف ایک مستقل رکن رکھتا کیونکہ وہ عالمی سطح پر طاقت کی تقسیم کا حقیقی عکاس ہے اور وہ امریکہ ہے۔"
2002ء: عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں (WMD) کے بارے میں کہا: "ہمیں پورا یقین ہے کہ صدام حسین نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار چھپا رکھے ہیں۔"
2002ء: ایران، عراق اور شمالی کوریا کے بارے میں جرج بش جونیئر کی جانب سے "شرارت کا محور" کی اصطلاح استعمال کئے جانے کے بارے میں کہا: "ان رژیموں کے درمیان مضبوط رابطہ موجود ہے۔ یہ ایسا محور ہے جس میں خطرناک اسلحہ اور خطرناک ٹیکنالوجی کا تبادلہ کیا جا رہا ہے۔"
2009ء: جوہری معاہدہ طے پانے سے قبل ایران کے بارے میں کہا: "آخرکار وہ واحد حکمت عملی جس کے ذریعے ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکا جا سکتا ہے تہران میں حکمفرما رژیم کی تبدیلی ہے۔"
2015ء: ایران پر امریکہ اور اسرائیل کے ممکنہ ہوائی حملوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا: "وقت وحشتناک حد تک کم ہے لیکن ایک حملہ کامیاب ہو سکتا ہے۔ ایسا اقدام امریکہ کی جانب سے تہران میں حکمفرما رژیم کی تبدیلی کیلئے حکومت مخالف عناصر کی شدید حمایت سے ہمراہ ہونا چاہئے۔"
2016ء: ترکی میں انجام پائی ناکام بغاوت کے بارے میں کہتا ہے: "اردگان ۔ ۔ ۔ ایک اسلامی حکامت کا خواہاں ہے۔ ناکام فوجی بغاوت سیکولر جرنیلوں کی آخری سانسیں تھیں۔ یہ کہ وہ ایک ترک خلافت کا اعلان کرتا ہے یا نہیں، مجھے نہیں معلوم لیکن اس نے اس کے مقدمات فراہم کر دیئے ہیں۔"
2016ء: ایران اور مغرب ممالک میں طے پانے والے جوہری معاہدے کے بارے میں کہا: "ایران سے جوہری معاہدہ میری نظر میں امریکی تاریخ میں سازباز پر مبنی انجام پانے والا بدترین اقدام ہے۔"
تحریر: محمد علی
بشکریہ: اسلام ٹائمز