Jul ۱۸, ۲۰۱۷ ۱۲:۵۱ Asia/Tehran
  • پاکستانی وزیراعظم کے خلاف نیا اتحاد قائم

پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کی حکومت کے خلاف ایک چار جماعتی اتحاد تشکیل دیا گیا ہے۔

نواز شریف کی حکومت کے خلاف بننے والے چار جماعتی اتحاد میں پاکستان مسلم لیگ (ق)، مجلس وحدت مسلمین، پاکستان عوامی تحریک اورسنی اتحاد کونسل شامل ہیں۔

چوہدری شجاعت حسین کی رہائشگاہ پر ہونے والے اس اجلاس میں حکومت مخالف جدوجہد پرمشاورت کی گئی۔ اس موقع پر رہنماوں کا کہنا تھا کہ اب نواز شریف کو کوئی نہیں بچا سکتا، پوری قوم سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑی ہے۔ انہوں نے کہا اداروں کو متنازع نہیں بنانے دیں گے۔ کوئی بھی سانحہ رونما ہوا تو ذمہ دار نواز شریف ہوں گے۔

دوسری جانب پاناما لیکس کیس کی سماعت جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجازالاحسن پرمشتمل سپریم کورٹ کا خصوصی بینچ کررہا ہے۔

آج پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل کے دوران کہا کہ سپریم کورٹ نے لندن فلیٹس، قطری خط، بیئررسرٹیفکیٹ سے متعلق سوالات پوچھے اورسپریم کورٹ نے جوسوالات پوچھے ان کے ہی جواب مانگے گئے تھے. جے آئی ٹی نے 13 سوالات کے ساتھ مزید 2 سوالات اٹھادیئے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ وہ دو سوال کون سے ہیں، کیا آپ کہنا چاہتے ہیں جائیدادوں کی نشاندہی جے آئی ٹی کا مینڈیٹ نہیں تھا جس پرخواجہ حارث نے کہا کہ جومقدمات عدالتوں سے ختم ہوچکے، جے آئی ٹی نے ان کی بھی پڑتال کی جب کہ عدالت نے مقدمات کھولنے کا حکم نہیں دیا تھا۔

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کو اپنے مرتب سوالوں کے جواب دیکھنے ہیں، ہم جے آئی ٹی کی سفارشات کے پابند نہیں، جے آئی ٹی نے جو بہتر سمجھا اسکی سفارش کردی، سفارش پر عمل کرنا ہے یا نہیں،اس کا فیصلہ عدالت کو کرنا ہے۔ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ ابھی عدالت نے فیصلہ نہیں کیا لیکن وہ جے آئی ٹی کی کارکردگی بتا رہے ہیں۔ ہماری درخواست قانونی نکات پر ہے، جے آئی ٹی کی رائے کی قانون میں کوئی نذیر نہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی نے تمام افراد کو جواب، دستاویز اور منی ٹریل کے لئے واضح موقع دیا تھا۔ وزیر اعظم ، مریم، حسن اورحسین کو بلایا گیا اور سوالات کیے گئے، ہم آپ کو وزیر اعظم ، مریم، حسن اور حسین کے جوابات بتا رہے ہیں اور ان کی سوچ تھی کہ انہیں نہ تو کچھ بتانا ہے اور نہ ہی کچھ تسلیم کرنا ہے۔ جے آئی ٹی کو جو کرنا ہے وہ خود کرے۔

خواجہ حارث نے جے آئی ٹی کو حاصل ہونے والے دستاوزیات کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی نے کسی غیر ملکی حکومت سے براہ راست قانونی مدد نہیں لی بلکہ دستاویزات کا حصول نجی فرم کے ذریعے کیا حالانکہ دستاویزات کو متعلقہ حکومت کے ذریعے ہی ارسال کیا جانا ضروری ہے، غیر ملکی حکومت کو ہی دستاویزات کے لیے درخواست کی جاسکتی ہے۔ تصدیق کے بغیر کوئی دستاویز قابل قبول نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ قوانین کے مطابق حکومت کے زیراثر ادارے اور افراد ہی حکومت کے زمرے میں آتے ہیں، دستاویزات جے آئی ٹی کو قانونی معاونت کے تحت ملیں، کیا ہم صرف اس بنیاد پر دستاویزات کو تسلیم نہ کریں کہ حکومت نے نہیں دیں۔

 

ٹیگس