Aug ۲۷, ۲۰۲۵ ۲۳:۳۳ Asia/Tehran
  • پاکستان، ایران مخالف پابندیوں کوبائی پاس کرنے  کے لیے عملی اقدامات کرے: سابق پاکستانی سفیر کا حکومت کو مشورہ

کہنہ مشق سفارت کار اور تہران میں پاکستان کے سابق سفیر نے اسلام آباد حکومت کو ایران کے مخالف پابندیوں کو بائی پاس کرنے کی غرض سے عملی راہیں تلاش کرنے کا مشورہ دیا ہے۔

سحرنیوز/پاکستان: 1997 اور 2003 کے درمیان چھ سال تک اسلامی جمہوریہ ایران میں پاکستان کے سفیر کے طور پر خدمات انجام دینے والے جاوید حسین نے اپنے ایک مضمون میں حکومت پاکستان کو مشورہ دیا ہے کہ امریکہ کے ساتھ ہماری قربت اپنے اہم پڑوسی ملک اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی قیمت پر نہیں ہونا چاہیے

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد کو بیانات سے بالاتر ہو کر تعاون کو مضبوط بنانے خصوصاً ایران مخالف پابندیوں کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔

چھ سال تک اسلامی جمہوریہ ایران میں پاکستان کے سفیر کے طور پر خدمات انجام  دینے والے  سفارت کار جاوید حسین نے اپنے مقالے میں دونوں ممالک کے تعلقات سے متعلق تازہ ترین پیش رفت، ایران کے خلاف صیہونی حکومت اور امریکہ کی حالیہ جارحیت کے بعد خطے کی صورتحال، غزہ جنگ اور خطے میں مشترکہ دشمنوں کی نقل و حرکت سے تہران اور اسلام آباد کو ہوشیار رہنے کی ضرورت پر زور دیا۔

کہنہ مشق پاکستانی سفارت کار کے مطابق، ایران جیسے اہم اور پڑوسی ملک کے ساتھ تعلقات ہمیشہ اسلام آباد کی خارجہ پالیسی میں سرفہرست ہونے چاہئیں، اور پاکستان کی طرف سے کوئی بھی ماورائے علاقائی سفارتی عمل انجام نہ پائے جس سے تہران کے ساتھ دوستانہ اور کلیدی تعلقات متاثر ہونے کا اندیشہ ہو۔

جاوید حسین نے اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان کے حالیہ  دورہ پاکستان اور اس سے قبل پاکستانی فوج کے کمانڈر کے دورہ امریکہ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ  واشنگٹن کے ساتھ ہماری دوستی ایران کے ساتھ ہمارے دوستانہ تعلقات  ختم کرنے کی قیمت پر  نہیں ہونا چاہیے جو کہ ایک برادر اور اہم مسلم ملک اور پاکستان کا پڑوسی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایرانی صدر مسعود پزشکیان کے دورہ پاکستان نے ایک بار پھر دونوں ممالک کے درمیان سلامتی برقرار رکھنے، اقتصادی ترقی کے فروغ، ثقافتی روابط کو مضبوط بنانے اور علاقائی تعاون کو تقویت  دینے کے لیے برادرانہ تعلقات کی اہمیت کو اجاگر کیا۔

جاوید حسین نے مزید کہا کہ یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ ایران پہلا ملک تھا جس نے 1947 میں آزادی کے فوراً بعد پاکستان کو تسلیم کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بانی پاکستان مرحوم قائد اعظم محمد علی جناح نے مئی 1948 میں ایران میں پہلے پاکستانی سفیر راجہ غضنفر علی خان سے کہا تھا کہ آپ ایسے ملک میں سفیر بن کر جارہے ہیں جس کے ساتھ پاکستان کے پہلے ہی سے قریبی تعلقات ہیں۔

کہنہ مشق سفارت کار نے پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنے مجموعی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دینا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اعلانات سے آگے بڑھ کر پاکستان اور ایران کے درمیان تجارتی اور اقتصادی تعاون بڑھانے اور امریکی اقتصادی پابندیوں سے بچنے کے عملی طریقے تلاش کرنے چاہییں۔

جاوید حسین نے مزید کہاکہ  یہ بات بالکل درست ہے کہ  ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔

انہوں نے ایران اور پاکستان کے تعلقات کے خلاف تباہ کن اقدامات بالخصوص مشترکہ دشمنوں کی طرف سے دہشت گردی کے استعمال کی بابت خبردار کرتے ہوئے مزید کہاکہ ہمیں امید ہے کہ دونوں ممالک مختصر وقت میں سالانہ دوطرفہ تجارت کو موجودہ سطح سے 10 بلین ڈالر تک بڑھانے کے لیے ضروری اقدامات کریں گے جیسا کہ دونوں فریقوں نے صدر ڈاکٹر پزشکیان کے دورہ پاکستان کے دوران زور دیا تھا۔

ایران، ہالینڈ اور جنوبی کوریا میں پاکستان کے سابق سفیر نے لکھا کہ اس مقصد کے لیے اور باہمی سلامتی کو مضبوط بنانا ہوگا جس کے لیے دونوں ممالک کو اپنے سرحدی علاقوں میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے دوطرفہ تعاون بڑھانا چاہیے۔ دونوں ممالک کو بلوچستان لبریشن آرمی اور جیش العدل جیسے گروہوں سمیت دہشت گردانہ سرگرمیوں کے خاتمے کے لیے موثر اقدامات کرنے چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ تہران اور اسلام آباد کے قومی مفادات ایک دوسرے کے لئے ضروری ہیں  اور سود مند تعاون کی تمام راہوں کو مکمل طور پر بروئے کار لاتے ہوئے دونوں پڑوسی ممالک کو بعض علاقائی معاملات یا علاقائی تجارت میں اپنے ممکنہ مسابقت کو محاذ آرائی میں تبدیل نہیں ہونے دینا چاہیے۔ اس کے بجائے انہیں صحت مند مقابلہ آرائي کے دائرے میں رہتے ہوئے  باہمی رشتوں کے اصول کے مطابق قدم آگے بڑھانا چاہیے۔

جاوید حسین نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان حالیہ جنگ کا ذکر کرتے ہوئے جنوبی ایشیا میں قیام امن کے لیے تہران کے مؤقف کی تعریف کی اور نئی دہلی کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف صیہونی حکومت کی جارحیت کی مذمت سے گریز پر نکتہ چینی کرتے ہوئے لکھاکہ برصغیر میں کچھ لوگ گاہے بگاہے خفیہ بات چیت کے دوران ایران اور پاکستان کے درمیان کمزور تعلقات  کی حکمت عملی پر زور دیتے رہے ہیں۔ ہمیں انہیں ان کے مذموم منصوبوں میں کامیاب نہیں ہونے دینا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ  ایران اور اس کی جوہری تنصیبات کے خلاف اسرائیل اور امریکہ کی حالیہ جارحیت نے علاقائی سلامتی کے منظر نامے کو تبدیل کر دیا ہے۔" پاکستان نے بجا طور پر ان حملوں کی مذمت کی، کیونکہ یہ حملے اقوام متحدہ کے چارٹر اور جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (NPT) کے فریق کی حیثیت سے ایران کے جائز حقوق کی واضح خلاف ورزی تھے۔

جاوید حسین کا اپنے مضمون میں کہنا تھا کہ ہمیں این پی ٹی کی دفعات کے مطابق پرامن مقاصد کے لیے جوہری پروگرام کو ترقی دینے کے ایرانی حق کی حمایت کرتے ہوئے، جوہری مسئلے پر ایران اور مغربی ممالک کے درمیان اختلافات کے پرامن حل پر زور دینا چاہیے۔

انہوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ ایران اور پاکستان صدیوں پرانے ثقافتی اور تاریخی تعلقات، اقتصادی تکمیلات، جغرافیائی قربت اور عوامی رابطوں کے ساتھ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، ان کے پالیسی سازوں کو اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ دونوں ممالک کی سلامتی ایک دوسرے سے منسلک ہے، اس لیے تہران اور اسلام آباد کے درمیان تعاون خطے میں امن کے قیام کے لیے ضروری ہے

ٹیگس