Feb ۰۵, ۲۰۱۷ ۲۳:۱۸ Asia/Tehran
  • امام  خمینی ( رح ) اور اسلامی  انقلاب

تحریر : مولانا ولی الحسن رضوی

آج دوست اور دشمن سب کی نگا ہیں امام خمینی  ( رح ) کے  اسلامی انقلاب پر مرکوز  ہیں۔  صدر اول  میں اموی اور عباسی حکمرانوں کے مسخ کردہ اسلام کی وہ شطرنجی بساط  جس نے عصر جدید میں  امریکی اسلام کے روپ میں عالمی سطح پر  اپنا  پورا  جال بچھا رکھا تھا  اپنے تمام شیطانی مہروں کے ساتھ یکے بعد دیگرے سمٹتی اور بکھرتی  جارہی ہے وہ روایتی  اسلام جو اپنی قرآنی روح سے محرومی کے باعث چند عبادتوں اور کھوکھلے  رسم و رواج  میں محدود و مسدود کردیا گیا تھا وہ سلطنتی  اسلام جس سے بڑی طاقتیں مظلوم و محروم  قوموں  اور ملتوں کے استحصال و استثمار کی راہ میں فائدہ اٹھا رہی تھیں اور وہ ملاّئی اسلام، جو کسی مدرسے یا عبادت خانہ میں بیٹھ کر  نماز و روزہ اور نکاح و میراث  کے مسائل  بیان  کرنے  اور  ماتھے پر سجدہ کے نشان  ابھر آنے کو ہی تقوے اور دینداری کی پہچان قرار دیتا تھا ، عصر حاضر  میں  اپنی ساکھ کھو چکا ھے اور امام خمینی ( رح ) کے اسلامی  انقلاب کی برکتوں سے ایک بار پھر خدا کا  بھیجا ہوا محمدی ، علوی  اور حسینی  اسلام ، اعتقاد ی   اور جہادی اسلام ظالموں  کی مخالفت  اور مظلوموں  کی حمایت کرنے  والا اسلام ، مسجد وں کو الہی تعلیمات کے فروغ کا مورچہ اور منبروں کو حق و انصاف  کی  نشر و اشاعت کا ذریعہ سمجھنے  والا اسلام نیز وقت  کے تمام فرعونوں اور قارونوں کا  سر کچل دینے والا اسلام  دینا میں مقبول ہو رہا ہے اور  حضرت  امام خمینی  رضوان اللہ علیہ  اور ان  کی  حقیقی نیابت آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای کی بے مثال  قیادت و رہبری کے نتیجے  میں  آج عالمی  سطح  پر اسرائیلی خرافات اور بدعت کی جگہ کتاب اورسنت  کی حکمرانی ہے ، ذلت اور اسارت کی زندگی  کے بجائے عزت و سرافرازی  کے ساتھ جہاد و شہادت  کا جذبہ پروان چڑھ رہا ہے  دنیا پرستی یا دین بیزاری  کی جگہ دنیاء و آخرت میں ترقی و نجات  کی لہر پیدا ہو چکی ہے ،  بے حیائی اور بے اعتدالی  کی جگہ  اسلامی غیرت و دینداری  دلوں  میں جگہ  بنا رہی ہے ۔ بے کاری و بد حالی  کے بجائے جوانوں میں علمی  جدو جہد اور انقلاب  کی روح  کا رفرما نظر  آرہی ہے  مسلمانوں  میں  دکھاوے  اور ڈھکوسلے کے بجائے  اپنی انفرادی  اور اجتماعی  ہر طرح  کی زندگی  میں  دین و مذہب کی تڑپ  اور عملی  خدمت کا رجحان  پیدا ہو گیا  ہے  اور لوگ  وہ اسلام پسند کرنے لگے  ہیں  جو بڑی  طاقتوں  کے  ہا تھوں میں  کھلونا بننے کے  بجائے  عزت و سر بلندی  کا علمبردار اور مظلوموں  اور محروموں  کا  طرفدار  ہو ۔

آج الہی اہداف و مقاصد  کی راہ میں ملت اسلامیہ   کی  پا مردی  و جوان  ہمتی  نے  نہ صرف  عالم اسلام بلکہ عالم بشریت  کی تمام مظلوم و محروم  ملتوں میں خود داری  و خود مختاری  کے ساتھ  حقیقی  انسانی زندگی  بسر  کرنے ، الہی راہوں  پر چلنے،  محمدی تعلیمات  پر عمل  کرنے،  علویؑ عدل و انصاف  قائم کرنے  اور حسینی ؑ عزم  و حوصلے  کا ثبوت پیش کرنے اور دین و مذہب  کی  سرخروئی کے لئے جینے اور مرنے کا سلیقہ  جو ان کردیا  ہے  اور یہ سب  کچھ امام خمینی  رضوان  اللہ علیہ  کے اخلاص  اور جدوجہد  اور ان کے وفادار شاگردوں اور ساتھیوں  کے بھر پور تعاون  اور  قوم  و ملت  کی قربانیوں کا  نتیجہ  ہے  خداوند  عالم  امام خمینی  رحمت اللہ علیہ  کو اعلی  علیین میں  جگہ  عنایت  فرمائے  اور ہم سب   کو ان کے  نائب  بر حق  ،  ولی امرمسلمین  آیت اللہ  العظمیٰ  سید علی خامنہ ای  دام ظلہ کی قیادت میں  اُن  کے چھوڑے ہوئے  انقلابی  نقوش پر قدم  بڑھا تے رہنے  کی تو فیق  عطا کرے ،   آمین یا رب العالمین  ۔

انقلاب  کا مزاج  یہ ہے کہ  اگر اس کی صحیح  و منطقی  اصو لوں پر  بنا رکھی  جائے تو وہ کسی  آتش  فشاں کی مانند اپنے ما حول  اور  گرد و پیش  کی پروا  کئے  بغیر  بڑھتا  اور پھیلتا  چلا جاتا ہے  اور  ہر طرف  ہر شخص  اور  ہر شے  کو  اپنی  طوفانی   حرارت  اور جوش و خروش  سے متاثر  و متزلزل  اور  منقلب  و متحیر  کردیتا  ہے۔

جہان  تک  ایران کے اسلامی انقلاب کی بات ہے اس سے قبل بھی سلطنت عثمانیہ کے زوال وانحطاط کے بعد  تقریبا دوسو سال  کے  دوران  مختلف  ملکوں  اور معاشروں  میں  مختلف اسباب  و عوامل  کے تحت  بہت سے  مسلمان مفکرین  اور دانشوروں  نے  اسلامی  تحریکیں  چلا ئیں  اور اپنی  اپنی  سطح  پر  چھوٹے  بڑے  اقدامات انجام دئے-  سید جمال الدین اسد آبادی  ، سید قطب،  شیخ شلتوت ، آیت اللہ العظمیٰ  بروجردی ، حسن البنا ، علامہ اقبال  اور علامہ مودودی  کی مانند بہت  سے مصلحین  قوم و ملت  نے اسلامی افکار و نظریات  اور قرآنی پیغامات کا از سر نو احیاء  کرنے کی  کوششیں کیں  اور مسلمانوں  کو ان  کی عظمت  رفتہ  کی  یادیں  دلا کر بیدار  و متحرک  کرنے کی جد و جہد کی  لیکن  اپنی تمام تر گرانقدر خدمات کے با وجود ، کہیں نہ کہیں  سے ایک کمی بہر حال قابل مشاہدہ تھی  اور وہ یہ  کہ تقریباً  ان سبھی حضرات نے ایک ہمہ گیر اسلامی انقلاب برپا کرنے اور وسیع  سطح پر  حقیقی اسلامی  حکومت  برقرار  کرنے کے بجائے صرف  اسلامی یکجہتی اور قرآنی  تعلیمات کے  احیا  کی دعوت پر اکتفا کی اور مسلمان معاشروں کی اصلاح  اور فلاح و ارتقاء  کے لئے  جس انقلابی   قوت و اقتدار کی  ضرورت  تھی  گذشتہ چند  صدیوں  کے  دوران  اسلامی افکار اور قرآنی  تعلیمات  کے   حامل علما اور مسلمان قائدین نے اس کی طرف پوری  توجہ کے ساتھ کام نہیں کیا-  اسلامی دنیا میں زیادہ تر روشن فکری  کی  مہم چلی اور صرف  قلم و زبان  کے ذریعہ  تنقید و تبصرے  اور تکفیر و تفرقے کو ہوا دی گئی  ، البتہ  بعض  مخلصین  کی سماجی اور ثقافتی ترقیوں کی راہ میں کی گئی کوشیش بھی لائق قدر ہیں  اور انھیں یقیناً بارگاہ ربوبیت میں اس کا اجر ملے گا ، لیکن یہ کوششیں پوری طرح   خدا  کے  اولوالعزم  نبیوں  اور وصیوں  کی الہی کوششوں  کے  زمرے  میں قرار نہیں دی جاسکتیں کہ  جس کے  تحت  خدا کے نمائندوں نے تاریخ  بشریت  کے  مختلف  ادوار میں  تعمیر  انسانیت کے  توحیدی فرائض  انجام دیئے  ہیں شاید یہی  وجہ ہے کہ  قرآن  کے اعلان : ’’اِنُ تَنُصُرُواللہ یَنُصُرکُم‘‘ [1]  اگر تم اللہ کی مدد کرو گے  تو وہ بھی تمہاری مدد  کرے گا   اور ’’اِن یَّنصُرٔکُمُ  اللہ  فلا غالِبَ  لَکُم‘‘ اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا، کے باوجود وہ  قائدین  ملت  بھی  جو اخلاص  رکھتے تھے ،  مسلمانوں کے زوال  و انحطاط  کی  لہروں پر بند باندھنے  اور ان کی عظمت  رفتہ  کو  دوبارہ احیاہ  کرنے  میں کامیاب  نہیں ہو سکے ، اور اسلام  کے  طاغوت  شکن اعتقادات و نظریات ، مسلمانوں  کے دل  و دماغ  میں  اتار کر  اسلامی دنیا کو اس کا کھویا ہوا اقتدار واپس نہیں دلا سکے۔

چنانچہ  رہبر کبیر  انقلاب اسلامی  حضرت امام خمینی  رضوان  اللہ علیہ  نے  اس کمی  کو محسوس  کیا  اور اسلام  کی تجدید حیات کے لئے وہی راہ  منتخب  کی جو مرسل  اعظم ﷺ   اور ان کے اہلبیت  مکرم علیہم السلام نے منتخب  کی تھی  ایک ہمہ گیر  انقلاب  کی  راہ اور اسلامی  حکومت  کی تشکیل کی راہ ،  کیونکہ  انقلاب  میں  ایمان و اعتقاد  پر استوار  تحرک و بیداری  کی  دعوت  دی جاتی  ہے  اور  اہل انقلاب ایک  معینہ  ہدف و مقصد کے  حصول  کی  راہ  میں  جد و جہد  اور قربانی  کا  عزم رکھتے  ہیں  اور جب تک اپنے نشانے  تک  پہنچ نہ جائیں  پورے  اخلاص و یقین کے ساتھ میدان عمل  میں ثابت قدم رہتے ہیں ۔

انقلاب بر پا کرنے  کے لئے  صرف زبان سے کہنے اور  قلم  سے لکھنے  پر ہی قناعت نہیں کیا جاسکتا  بلکہ  عملی  اقدامات  کے ذریعہ  مقصد کی راہ میں حائل رکاٹوں  کو برطرف کرنے کے لئے مورچے  قائم  کرنا پڑتے ہیں  تا کہ قلم  و زبان کے ساتھ قدم اور بازو بھی  حرکت  کریں ۔ اسی لئے انبیاء علیہم ا سلام   کی  تحریک  اور انقلاب  کے بارے میں  قرآن  نے صاف  طور پر اعلان کیا ہے :

’’ھٔوَ الّذیُ  اَرُسَلَ  رَسُوُلَۂ بِالٔھُدی وَ  دینِ  الٔحَقِ ّ لِیُظُھِرَ ۃ عَلَی الّدِیُنِ کُلِّہِ وَ لَو کَرِہ  اُلُمشُرِکُونَ ‘‘  اللہ نے اپنے رسول ﷺ کو ہدایت  اور دین  حق کے ساتھ اسی  لئے  بھیجا  ہے  تاکہ  اس کا دین ، تمام دینوں  ( اور اِزموں ) پر غلبہ حاصل  کر لے چاہے  یہ بات  مشرکین  کو  ناپسند و ناگوار ہی کیوں نہ ہو  ۔

اور یہ اسلامی  انقلاب  کے  خصوصیات  میں سے ہے کہ امام خمینی  رضوان اللہ علیہ  نے  اس  میں صدر اول  کی  انقلابی  قدروں  کو  ہی  نمونہ  عمل قرار دیا  ہے-  قلم  و زبان  سے  الہی دعوت  قرآن  کے ساتھ  ہجرت ، جہاد ، قربانی ، بچوں  کی جدائی ، عزیزوں  اور دوستوں  کا  فراق ،  ایثار  و شہادت  ، اقتصادی اور معاشرتی  بائیکاٹ،  تہمتیں اور اذیتیں  سب کچھ اس میں موجود ہے ۔

امام خمینی ( رح ) کا اولین مقصد ملک و ملت  پر مسلط  شیطانی طاغوتوں  کے ہاتھ  قطع کر کے  دین خدا کی حکمرانی  قائم  کرنا تھا  اسی لئے  آپ نے  شروع سے ہی اسلامی حکومت کی برقراری  کا نعرہ  بلند کیا اور حتی عالم ہجرت میں بھی اسلامی  حکومت  کے تمام  خد و خال  معین و مشخص کرنے کے لئے  حوزہ علمیہ نجف اشرف میں اسلامی  حکومت و ولایت  کی  پوری   تھیو ری  بیان  کردی  اور   اپنے اعلی اسلامی مقاصد  کی تکمیل  کے لئے  مومن و مخلص  ، حالات زمانہ سے آگاہ  ، قربانی  کا  حو صلہ رکھنے والے  علماء و فضلا  کی  ایک پوری جماعت کی  تربیت  کردی اور ایک  قوم کو خدا  کی  راہ میں جد و جہد پر اس  یقین  کے ساتھ لگا دیا کہ :

"ھُوَ الَّذِیٔ  اَیَّدَک  بِنَصُرِہ وَ بِالُمُؤمنین‘‘ اللہ نے ہی اپنی مدد و نصرت کے ساتھ مومنین کے  ذریعہ  آپ  کی تائید کی ہے ۔

چنانچہ اللہ  کی مدد سے اسلامی  حکومت  و معاشرت  کے  بنیادی  خطوط  یعنی  سماجی  انصاف  ، سیاسی  خود مختاری  ، اقتصادی خود کفیلی  اور علمی و اخلاقی  ارتقاء  کا ضامن  اسلامی  جمہوری  نظام  برقرار کرنے  کے  اصول  و ضوابط ،  امام خمینی  رضوان اللہ علیہ نے پیش  کر دیئے    ( نہ مشرق نہ مغرب ،  جمہوریہ اسلامی) کی آواز در اصل ، عصر  حاضر  کی تمام جاہلی  قدروں  اور  تہذیبوں  کو مٹا کر اسلام کی الہی قدروں کو انسانی زندگی  میں رائج  و راسخ کر نے  کا اعلان ہے اور اسلامی  انقلاب  نے یہ تبدیلی  حقیقی  معنی میں ایشیا سے  افریقہ تک  پوری  عالمی  سیاست  میں  بر پا کردی ہے ۔

امام خمینی  رضوان اللہ علیہ اور ان کے بعد پچھلے  ستائیس  برسوں  کے دوران  نائب امام زمان حضرت آیت اللہ العظمی ٰ خامنہ ای دام ظلہ نے عالمی امپیریلزم کی تمام تر مخالفتوں  کے با وجود اب تک اسلامی انقلاب  کی  ان تمام خصوصیات کو پوری  طرح  محفوظ  و بر قرار کر رکھا  ہے اور الحمدللہ  اس کی تابندگی اور درخشندگی  میں  روز افزوں ترقی ہو رہی  ہے اور وہ  دن دور نہیں  کہ ایک بار پھر عالمی  سطح  پر اسلامی اقتدار حکمراں ہو اور عالم بشریت   استکبار کے ظلم و استبداد سے نجات  حاصل  کرلے-

حزب اللہ  لبنان کے ایک مرد مجاہد سید  حسین موسی’’ ابو ھشامؔ‘‘  نے  اسی حقیقت کو دوسرے  الفا ظ میں ادا کیا ہے۔ اُن کے بقول :

دشمنان اسلام  بھی یہ بات مانتے اور جانتے ہیں کہ امام خمینی  ( رح ) نے حضرت محمد مصطفی  ﷺ کے سچے اور حقیقی  اسلام کی عظمت  چودہ سال  بعد  پھر  سے  زندہ کی ہے  اور مسلمانوں کو خود  اعتمادی  اور  ابدی  عزت و وقار عطا کیا ہے ۔

اگر چہ  امام خمینی  آج  ملت کے در میان نہیں  ہیں  لیکن  انھوں نے جو  راہ  مسلمانوں  کو دکھائی  ہے  وہی  راہ ہے جو امام حسین  نے  اپنے سا تھیوں  اور  پیرووں  کو دکھائی  تھی ۔

( ظلم و استبداد  کے خلاف ) امام حسین کا خونین  انقلاب  امام خمینی ( رح ) کے  استکبار  مخالف  انقلاب کے  ساتھ منسلک  ہو چکا  ہے  اور یہ انقلاب  کی راہ  تا ابد جاوداں  رہے گی ۔

سورہ انفال   63

سورۂ محمد ؐ      7      1

 

 

ٹیگس